مسلمان آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن دریاکے دونوں طرف دور دور تک دلدل تھی، جس میں گزرنا ممکن نہیں تھا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ دلدل دریا کے دونوں کناروں سے لے کر ایک ایک میل دور تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ علاقہ سطح سمندر سے کئی سو فٹ نیچیے اور وہاں اُس دور میں نشیب زیادہ تھے۔دیکھاگیا کہوہاں دریاکے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے پھر یہ پانی کہاں سے آگیا تھا جس نے اس نشیبی علاقے کو دلدل بنا ڈالا تھا؟’’کچھ دور اوپر جا کر دیکھیں۔‘‘اک مقامی آدمی نے بتایا۔’’فحل میں رومی فوج کے دستے رہتے تھے۔وہ یہاں سے چلے گئے۔اوپر کی طرف جا کر انہوں نے دریا میں پتھروں کا بند باندھا اور دونوں کنارے توڑ دیئے۔اس طرح اوپر سے یہ پانی یہاں آکر جمع ہو گیااور پھیلتا چلا گیا۔‘‘رومیوں نے مسلمانوں کو روکنے کا بڑا سخت انتظام کیا تھا۔رومیوں نے غالباً یہ سوچا تھا کہمسلمان صحرا میں یا میدان میں چلنے اور لڑنےکے عادی ہیں اور وہ دلدل میں سے نہیں گزرسکیں گے۔اگر انہوں نے یہ سوچا تھاتو بالکل ٹھیک سوچا تھا۔دلدل مسلمانوں کیلئے بالکل نئی چیز تھی۔ان کیلئے تو چٹانیں اور پہاڑیاں بھی نئی چیز ت------------------------علاقوں میں بھی لڑائیاں لڑی تھیں اور دشمن کو شکست دی تھی۔وہ دلدل میں سے بھی گزر جاتے لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔سالار شرجیلؓ نے دلدل سے کچھ دور ہٹ کر اپنے دستوں کو ایک ترتیب میں کر دیا۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بنالعاص تھے۔سوار دستے کی کمان ضرار بنالازور کو دی گئی تھی۔خالدؓکو وہ دستے دیئے گئے جنہیں بیسان کی طرف جانا تھا۔خالدؓ ہراول میں تھے۔کچھ آگے گئے تو دلدل نے ان کے پاؤں جکڑ لیے۔خالدؓ اپنی عادت کے مطابق دلدل میں سے گزرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن دلدل زیادہ ہی ہوتی گئی اور وہ مقام آگیا جہاںدلدل میں سے پاؤں نکالنا بھی ناممکن ہو گیا۔چنانچہ وہ دلدل میں سے نکلنے لگے۔نکلنا بھی دشوار ہو گیا۔بڑی کوشش کے بعد خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ دلدل سے نکلے اور واپس فحل آگئے۔رومی سالار سقلار تجربہ کار سالار تھا۔وہ جنگ کیلئےبالکل تیارتھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس دھوکے کو کامیاب سمجھتا تھا کہ مسلمان دلدل میں سے نہیں نکل سکیںگے۔اسی دلدلی علاقے میں ایسی جگہ بھی تھی جہاں پانی کے نیچے زمین بہت سخت تھی اور وہاں کیچڑ نہیں تھا۔وہاں سے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا- اس قسم کے راستے کا علم صرف رومیوں کو تھا۔سقلار نے اپنے لشکر سے کچھ دستے الگ کیے اورانہیں ایک جگہ اکٹھاکیا۔’’عظمتِ روم کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنے لشکرسے کہا۔’’آج تمہارا دشمن پھندے میں آگیا ہے۔مسلمان دلدل میں سے نہیں گزرسکے۔انہوں نے دلدل سے پرے فحل کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ہم اسی دلدل میں سےجس میں سے مسلمان نہیں گزر سکے انہیں گزر کر دکھائیں گے۔وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے آگے دلدل ہے جو انہیں ہم سے محفوظ رکھے گی ہم رات کو حملہ کریں گے۔ اس وقت وہ اپنے پڑاؤ میں گہری نیند سوئے ہوئے ہوں گے……‘‘’’اے رومیو!یہ رات کی لڑائی ہو گی جو آسان نہیں ہوتی لیکن آج تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے خون کا بدلہ لینا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، تمہیں اپنا شکار سویا ہوا ملے گا۔کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل کر جائے۔ان کے گھوڑے ان کے ہتھیار اور ان کے پاس ہمارا لوٹا ہوا جومال ہےیہ سب تمہارا ہے۔اگر تم ان سب کو ختم کر دو گے تو سمجھو تم نے اسلام کو ختم کر دیا اور یہی ہمارا مقصدہے۔شہنشاہ ہرقل کا یہ وہم دور کر دو کہ ہم مسلمانوں کو شکست دے ہی نہیں سکتے۔‘‘رومی سپاہی یہ سن کر کہ وہ اپنے دشمن کو بے خبری میں جالیں گے، جوش سے پھٹنے لگے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پہلی لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے کئی بھاگے بھی تھے۔وہ دانت پیس رہے تھے۔وہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہے تھے۔۲۳جنوری ۶۳۵ء بمطابق ۲۷ ذیعقد ۱۳ھ کا سورج غروب ہوگیا تورومیوں کے سالار سقلار نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔شام بڑی تیزی سے تاریک ہوتی گئی۔سقلار نے پیش قدمی کا حکم دے دیا۔اسے دلدل میں سے گزرنے کا راستہ معلوم تھا۔اپنے دستوں کو اس نے اس راستے میں سے گزارا۔جب تمام دستے گزر آئے تو سقلار نے انہیں اس ترتیب میں کر لیا جس ترتیب میں حملہ کرنا تھا۔یہ حملہ نہیں شبخون تھا اور یہ یک طرفہ کارروائی تھی۔اس ترتیب میں سقلار نے اپنے دستوں کو فحل کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا۔وہ خود سب سے آگے تھا۔اس نے پیش قدمی کی رفتارتیز رکھی تاکہ مسلمانوں کو ان کے آنے کی خبر ہوبھی جائے تو انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی جائے۔رومی اس جگہ پہنچ گئے جہاں مسلمانوں کا پڑاؤ تھا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا، سقلارجاسوسوں کو کوسنے لگا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ پڑاؤ فلاں جگہ ہے۔اسے اﷲاکبر کے نعرے کی گرج سنائی دی۔اس کے ساتھ ہی مشعلیںجل اٹھیں۔سقلار نے دیکھا کہ مسلمان نہ صرف بیدار ہیں بلکہ لڑنے کی ترتیب میں کھڑے ہیں۔سالار شرجیلؓ محتاط سالا رتھے۔انہیں یہاں آکر جب معلوم ہوا تھا کہ یہ دلدل کہاں سے آگئی ہے تو انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ رومیوں نے ان کا صرف راستہ ہی نہیں روکا بلکہ وہ کچھ اور بھی کریں گے۔رومی یہی کر سکتے تھے کہ حملہ کردیں۔چنانچہ شرجیلؓ نے شام کے بعد اپنی فوج کو سونے کے بجائے لڑائی کیلئے تیار کرا لیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے جاسوسدلدل کے اردگرد پھیلا دیئے تھے۔رومی جب دلدل میں سے گزر رہے تھے، ایک جاسوس نے شرجیلؓکو اطلاع دے دی کہ دشمن آرہا ہے۔شرجیلؓ نے اپنے دستوں کو ایک موزوں جگہ جو انہوں نے دیکھ لی تھی، جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔’’مدینہ والو!‘‘ سقلار نے بلند آواز سے مسلمانوں کو للکارا۔’’آگے آؤ۔ اپنا اور اپنی فوجکا انجام دیکھو۔‘‘’’حملہ کرنے تم آئے ہو۔‘‘شرجیلؓ نے للکار کا جواب للکار سے دیا۔’’آگے تم آؤ۔ تم اس دلدل سے نکل آئے ہو، اب ہماری دلدل سے نکل کر دیکھو……رومیو! کل صبح کا سورج نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘للکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔آخرسقلار نے اپنے ایک دستے کو حملے کاحکم دے د یا۔اس نے یہ چال چلی تھی کہ اس کا دستہ حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئے گا تو مسلمان بھی اس کے ساتھ الجھے ہوئے آگے آجائیں گے۔ لیکن شرجیلؓ نے پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ دفاعی لڑائی لڑنی ہے۔اس کے مطابق مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔رومی موجوں کی صورت میں ان پر حملہ کرتے تھے اور مسلمان حملہ روکتے تھے۔اپنی ترتیب نہیں توڑتے تھے۔سالار شرجیلؓ رات کے وقت چال چلنےکا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ان کینفری رومیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔اسے وہ کارگر انداز سے دن کی روشنی میں ہی استعمال کر سکتے تھے۔سقلار غالباً اس دھوکے میں آگیا تھا کہ مسلمانوں میںلڑنے کی تاب نہیں رہی۔اس خیال سے اس نے موج در موج حملوں میں اضافہ کر دیا۔لیکنمسلمانوں نے اپنی صفوں کوٹوٹنے نہ دیا۔وہ آگے بڑھ کر حملہ روکتے پھر اپنی جگہ پرآجاتے۔رومی ہر حملے میں اپنے زخمی چھوڑکر پیچھے ہٹ جاتے۔ایک حملے کی قیادت سقلار نے خود کی۔وہ اپنے دستے کو للکارتا ہوا بڑی تیزی سے آگے گیا۔مشعلوں کی روشنی میں مسلمانوں نے رومیوں کا پرچم دیکھ لیا۔چند ایک مجاہدین رومیوں میں گھس گئے اور سقلار کو گھیر لیا۔اس کے محافظوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔محافظ بے جگری سے لڑے،اور اس دوران سقلار نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اپنے محافظوں کے حصار سے جہاں بھی نکلتا مسلمان اسے روک لیتے تھے۔ ایک مجاہد اس معرکے سے نکل گیا اور اس نے سالار شرجیلؓ کو بتایا کہ اب کے رومیوں کو اتنی جلدی پیچھے نہ جانے دینا کیونکہ کچھ مجاہدین نے رومیوں کے سالار کو نرغےمیں لے رکھا ہے۔شرجیلؓ نے اس اطلاع پر اپنے چند ایک منتخب جانباز رومیوں کے قلب میں گھس جانے کیلئے بھیج دیئے۔تھوڑی ہی دیر بعد مجاہدین کے نعرے سنائی دینے لگے۔’’خدا کی قسم!ہم نے رومی سالار کو مار ڈالا ہے۔‘‘’’رومیو اپنا پرچم اٹھاؤ۔‘‘’’اپنے سالار کی لاش لے جاؤ رومیو!‘‘رومیوں نے دیکھا ان کا پرچم انہیں نظر نہیں آرہا تھا اور انہیں اپنے سالار کی للکار بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ان میں بددلی پھیلنے لگی، لیکن کسی نائب سالار نے پرچم اٹھا لیااور لڑائی جاری رکھی۔ سورج طلوع ہوا، لیکن میدانِ جنگ کی گرد و غبار میں اسے کوئی دیکھ ہی نہ سکا۔مسلمان بھی شہید ہوئے تھے لیکن رومیوں کی اموات زیادہ تھیں۔ میدان میں ان کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ان کے زخمی جو اٹھنے کےقابل نہیں تھے رینگ رینگ کر گھوڑوں تلے کچلے جانے سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میدان رومیوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔’’اسلام کے علمبردارو!‘‘ سالار شرجیلؓ کی للکار اٹھی۔’’تم نے رومیوں کو انہی کے خون میں نہلا دیاہے۔تم نے ساری رات ان کے حملے روکے ہیں، اب ہماری باری ہے۔‘‘’’اﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ شرجیلؓ نے اپنے دائیں پہلو کے ایک دستے کو آگے بڑھایا۔ رومی حملہ روکنے کیلئے تیار تھے لیکن رات وہ حملے کرتے اور پیچھے ہٹتے رہے تھے ان کے جسم تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ شرجیلؓنے اپنی فوج کی جسمانی طاقت کو ضائع نہیں ہونے دیا تھا اسی لیے وہ دفاعی لڑائی لڑاتے رہے تھے۔شرجیلؓ کے دائیں پہلو کے ایک دستے نے باہر کی طرف ہو کرحملہکیا اس سے رومیوں کے اس طرف کا پہلو پھیلنے پر مجبور ہو گیا۔شرجیلؓ نے فوراً ہی رومیوں کے دوسرے پہلو پر بھی ایسا ہی حملہ کرایا اور اس پہلو کو بھی قلب سے الگ کردیا۔رومیوں کے پہلو دور دور ہٹ گئے تو شرجیلؓ نے قلب کے دستوں کو اپنی قیادت میں بڑے شدید حملے کیلئے آگےبڑھایا۔رومی رات کے تھکے ہوئے تھے، اور ان کا سالار بھی مارا گیا تھا۔صاف نظر آرہا تھا کہ ان میں لڑنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے دشمن کے پہلوؤں کو اورزیادہ پھیلاتے چلے گئے وہ اب اپنے قلب کےدستوں کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کے سالار معمولی سالار نہیں تھے،وہ تاریخ ساز سالار ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے،اور قلب کے چندایک دستوں کے سالار خالدؓتھے۔رومیوںکے لیے خالدؓ دہشت کادوسرا نام بن گیا تھا۔گھوڑ سوار دستوں کے سالار ضرار بن الازور تھےجو سلطنت روم کی فوج میں اس لئے مشہور ہو گئے تھے کہ وہ میدان میں آکر خود اور قمیض اتار کر کمر سے برہنہ ہو جاتے تھے،اورلڑتے تھے۔انفرادی معرکہ ہوتا یا وہ دستے کی کمان کر رہے ہوتے وہ اس قدر تیزی سے پینترا بدلتے تھے کہ دشمن دیکھتا رہ جاتا تھااور ان کی برچھی میں پرویا جاتا تھایا تلوار سے کٹ جاتا تھا۔مسلمانوں کی نفری بہت کم تھی۔ اس کمی کو ان سالاروں نے ذاتی شجاعت، جارحانہ قیادت اور عسکری فہم و فراست سے پورا کیااور سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب رومی نفری افراط کے باوجود منہ موڑنے لگی۔رومیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ تتر بتر ہو کر بھاگا نہیں کرتے تھے۔ان کی پسپائیمنظم ہوتی تھی۔لیکن فحل کے معرکے سے وہ بے طرح بھاگنے لگے۔ان کی مرکزی قیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کا جانی نقصان اتنا ہوا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی بلکہ اتنا زیادہ خون دیکھ کر ان پر خوف طاری ہو گیا تھا- ان کی ایسی بے ترتیب پسپائیکی وجہ اور بھی تھی۔ان کا سالار سقلار انہیں دلدل میں سے نکال لایا تھا اسے معلوم تھاکہ کہاں سے زمین سخت ہے جہاں پاؤں کیچڑ میں نہیں دھنسیں گے مگر اب ان کے ساتھ وہ سالار نہیں تھا۔اسکی لاش میدانِ جنگ میں پڑی تھی۔سپاہیوں نے اس لئے بھاگنا شروع کر دیا کہ وہ جلدی جلدی دلدل میں وہ راستہ دیکھ کر نکلجائیں۔سالار شرجیلؓ نے دشمن کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو انہیں دلدل کا خیال آگیا۔انہوں نے دشمن کے تعاقب کا حکم دے دیا۔مسلمان پیادے اور سوار نعرے لگاتے ان کے پیچھے گئے، تو رومی اور تیز دوڑے لیکن دلدل نے ان کا راستہ روک لیا۔ہڑ بونگ اور افراتفری میں انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دلدل میں سے وہ کہاں سے گزر آئے تھے۔ان کے پیچھے بھی موت تھی اور آگے بھی موت تھی وہ دلدل میں داخلہو گئے اور اس میں دھنسنے لگے۔مسلمان بھی دلدل میں چلے گئے اور انہیں بری طرح کاٹا۔جو رومی دلد ل میں اور آگے چلے گئے تھے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا گیا۔دریاکا پانی چھوڑ کر رومیوں نے جو دلدل پیدا کی تھی کہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں وہ دلدل رومیوں کیلئے ہی موت کا پھندا بن گئی تھی۔فحل میں لڑے جانے والے اس معرکے کو ذات الروغہ یعنی کیچڑکی لڑائی کہا جاتا ہے۔اس میں سے بہت تھوڑے سے رومی بچ سکے تھےوہ بیسان چلے گئے تھے۔اس معرکے میں دس ہزار رومی مارے گئے تھے،اور جو زخمیہو کر میدانِ جنگ میں رہ گئے تھے ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔سالار شرجیلؓ نے وہاں زیادہ رکنامناسب نہ سمجھا۔وہ دشمن کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہنا چاہتے تھے۔تاکہ دشمن پھر سے منظم نہ ہو سکے۔انہوں نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوچند ایک دستوں کے ساتھ فحل میں رہنے دیااور خود باقی ماندہ فوج کے ساتھ آگے بڑھے۔ لیکن دلدل نے پھر ان کا راستہ روک لیا۔انہوں نے دو تین زخمی رومیوں سے پوچھا کہ دلدل سے پار جانے کا راستہ کون سا ہے؟رومی زخمیوں نے انہیں ایک اور راستہ بتا دیا یہ بڑا ہی دور کا راستہ تھا۔لیکن دلدل سے گزرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا دوسرا راستہ اختیار کرنے میں۔شرجیلؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان دستوں کے ساتھ فحل میں چھوڑ دیا، اور دلدل سے دور ہٹ کراس راستے سے گزر گئے جو رومی زخمیوں نے انہیں بتایا تھا۔انہیں دریائے اردن بھی عبور کرنا پڑاانہوں نے آگے بڑھ کر بیسان کا محاصرہ کرلیا۔بیسان میں رومیوں کی خاصی نفری تھی۔ ہرقل نے نفری کے بل بوتے پر مسلمانوں کو فیصلہ کن بلکہ تباہ کن شکست دینے کا انتظام کیا تھا۔ اس کے منصوبے کی پہلی ہی کڑی ناکام ہو گئی تھی فحل کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی چند ایک ہی خوش قسمت تھے جو دلدل میں سے نکل گئے تھے۔ان کی پناہ بیسان ہی تھی۔ بیسان کا رومی سالاراس خبر کے انتظار میں تھا کہ اس کے ساتھی سالار سقلار نے مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیا ہے اور مسلمانوں کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل گیا ہے لیکن چوتھی شام بیسان میں پہلے رومی زخمی داخل ہوئے۔ زخمی ہونے کے علاوہ ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔تھکن اور خوف سے ان کی آنکھیں باہر کو آرہیتھیں ان کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے اوروہ پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں تھے۔بیسان میں داخل ہوتے ہی انہیں بیسان کے فوجیوں نے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آگے کیا ہوا ہے؟’’کاٹ دیا!‘‘ ایک سپاہی نے خوف اور تھکن سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب کو کاٹ دیا۔‘‘’’مسلمانو¬ں کو کاٹ دیا؟‘‘ان سے پوچھاگیا۔’’نہیں! ‘‘سپاہی نے جواب دیا۔’’انہوں نے کاٹ دیا۔کیچڑ نے مروادیا۔‘‘اس کے ساتھ کچھ اور سپاہی بھی تھے۔ان کی جسمانی اور ذہنی حالت بھی اسی سپاہی جیسی تھیانہوں نے بھی ایسی ہی باتیں سنائیں جنمیں مایوسی اور دہشت تھی۔ ان کی یہ باتیں اس رومی فوج میں پھیل گئیں جو بیسان میں مقیم تھی۔اس فوج میں ایسے سپاہی بھی تھے جو کسی نہ کسی معرکے میں مسلمانوں سے لڑ چکے تھے انہوں نے فحل سے آئے ہوئے سپاہیوں کی باتوں میں رنگ آمیزی کی۔اس کااثر رومیوں پر بہت برا پڑا۔’’میں کہتا ہوں وہ انسان ہیں ہی نہیں۔‘‘ایک سپاہی نے مسلمانوں کے متعلق کہا۔’’ہماری فوج جہاں جاتی ہے مسلمان جیسے وہاں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘’’ان کی تعداد ہم سے بہت کم ہوتی ہے۔‘‘ایک اورسپاہی نے کہا۔’’لیکن لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد ہم سے زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔‘‘دہشت کے مارے ہوئے ان زخمی سپاہیوں کی باتیں جوہوا کی طرح بیسان کے کونوں کھدروں تک پہنچ گئی تھیں جلد ہی سچ ثابت ہو گئیں۔ایک شور اٹھا۔’’ مسلمان آگئے ہیں۔مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی بیسان کے اندر ہڑبونگ مچ گئی۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی قلعے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔دروازے بند ہو چکے تھے ۔ وہ اب اندر ہی چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔درہم و دینار اور سونا وغیرہ گھروں کے فرشوں میں دبانے لگے۔ رومی فوج قلعے کی دیواروں پر اور بُرجوں میں جاکھڑی ہوئی۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے للکار کر کہا۔’’خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘اس کے جواب میں اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں لیکن مسلمان ان کی زد سے دور تھے۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے ایک بار پھر اعلان کیا۔’’ہتھیار ڈال دو۔جزیہ قبول کرلو۔نہیں کروگے تو بیسان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔تم سب مردہ ہو گے یا ہمارے قیدی۔ ہم کسی کو بخشیں گے نہیں۔‘‘رومی فوج میںتو مسلمانوں کی دہشت اپنا کام کر رہی تھی لیکن اس فوج کے سالار اور دیگر عہدیدار جنگجو تھے۔اپنی عسکری روایات سے اتنی جلدی دستبردار ہونے والے نہیں تھے۔انہوں نے نہ ہتھیار ڈالنے پر آمادگیظاہر کی نہ جزیہ کی ادائیگی قبول کی۔مسلمان ایک رات اور ایک دن مسلسل لڑے تھے، پھر انہوں نے بھاگتے رومیوں کا تعاقب کیا، پھر بیسان تک آئے تھے۔انہیں آرام کی ضرورت تھی۔شرجیلؓ نے انہیں آرام دینے کیلئے فوری طور پر قلعے پر دھاوا نہ بولا۔البتہ خود قلعے کے اردگرد گھوڑے پر گھوم پھر کر دیکھتے رہے کہ دیوار کہیں سے کمزور ہے یا نہیں یا کہیں سے سرنگ لگائی جا سکتی ہے؟سات آٹھ روز گزر گئے۔رومی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمان قلعے پر ہلہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔لیکن رومی سالار یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس کی اپنی فوجکی ہمت ماند پڑی ہوئی ہے۔اس نے اپنی فوج کے جذبے کو بیدار کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کر دے اور قلعے کی لڑائی کا فیصلہ قلعے سے باہر ہی ہو جائے۔اگلے ہیروز قلعے کے تمام دروازے کھل گئے اور ہردروازے سے رومی فوج رکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلی۔اس میں زیادہ تر سوار دستے تھے،انہوں نے طوفان کی مانند مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کیلئے یہ صورتِ حال غیر متوقع تھی۔ان کی نفری بھی دشمن کے مقابلے میں کم تھی۔پہلے تو ایسے لگتا تھا جیسے رومی مسلمانوں پر چھا گئے ہیں اور مسلمان سنبھل نہیں سکیں گے لیکن سالار شرجیلؓ عام سی قسم کے سالار نہیں تھے۔انہوں نے دماغ کو حاضر رکھا اور قاصدوں کو دوڑا دوڑا کر اور خود بھی دوڑ دوڑ کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کو کہا۔مسلمانوں نے اس حکم پر فوری عمل کیا، اور پیچھے ہٹنے لگے،اس کے ساتھ ہی شرجیلؓ نے بہت سے مجاہدین کو قلعے کے دروازوں کے قریببھیج دیا۔ان میں زیادہ تر تیر انداز تھے۔ان کیلئے یہ حکم تھا کہ رومی واپس دروازوں کی طرف آئیں تو ان پر اتنی تزی سے تیر پھینکے جائیں کہ وہ دروازوں سے دور رہیں۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment