Visitors

قسط نمبر 64

مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھااور انہیں محصور ہونا پسند بھی نہیں تھا۔وہ میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے بھی لڑ جاتے تھے۔رومی چونکہ جنوب مغرب کی طرف سے آرہے تھے اس لیے یزیدؓ نے اپنے دستے کو اسی سمت جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا، رومی فوج سامنے آئی تو پتا چلا کہ اس کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ان رومی دستوں کا سالار تھیوڈورس تھا۔وہ انطاکیہ سے بیروت کے راستے دمشق کو فتح کرنے آرہا تھا۔جب مرج الروم پہنچا تو ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی زیرِ قیادت مجاہدین کی فوج آگئی۔اسے دمشق پہنچنا تھا وہ وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا۔مؤرخ واقدی ،ابنِ ہشام اور ابو سعید لکھتے ہیں کہ اس نے بڑی کارگر ترکیب سوچ لی، ایک یہ کہ مسلمانوں کے سامنے مرج الروم میں صف آراء رہا لیکن لڑائی سے گریز کرتا رہا۔رات ہوگئی تو نہایت خاموشی سے اپنے دستوں کو دمشق لےگیا۔ رومی سالار شنس پیچھے رہ گیا۔اس کے ذمے یہ کام تھا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کو یہیں روکے رکھے۔اس مقام سے دمشق بیس میل بھینہیں تھا۔تھیوڈورس صبح کے وقت دمشقکے مضافات تک پہنچ گیا۔وہ جب دمشق کے قریب گیا تو مسلمانوں کے قلعے کے باہر منتظر پایا۔یہ دمشق کے دفاعی دستے تھے جن کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔تھیوڈورس کو معلوم تھا کہ دمشقکے دفاع میں مسلمانوں کی یہی نفری ہے جو باہر کھڑی ہے۔اس نے اپنے دستوں کو للکار کر کہا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کچل ڈالو۔دمشق تمہارا ہے۔’’مجاہدو!‘‘ یزیدؓبن ابی سفیان نے اپنے دستوں سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’دمشق تمہاری آبرو ہے۔ دشمن شہر کی دیوار کے سائے تکبھی نہ پہنچے۔کفر کے طوفان کو شہر سے باہر روک لو۔‘‘یہ جوش و جذبات کی للکار تھی۔جس نے مجاہدین کو گرما دیا،لیکن حقیقت بڑی تلخ تھی۔کہ دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ اور کمک کی کوئی صورت نہیں تھی۔نہ صرف یہ کہ دمشق ہاتھ سے جارہا تھا بلکہ مجاہدین میں سے کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔مجاہدین جہاں بھی لڑے کم تعداد میں لڑے لیکن کمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ وہ یزیدؓ کے دستوں کو آسانی سے گھیرے میں لے سکتے تھے۔ہرقل نے یہی کچھ سوچ کر وہاں زیادہ نفری بھیجی تھی اور تھیوڈورس اس کا آزمودہ سالار تھا۔تھیوڈورس نے مسلمانوں کو دیکھ کر اپنے دستوں کو روکا نہیں ،ا س نے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ دونوں پہلوؤںکی طرف سے ہوا تھا۔یزیدؓ بن ابی سفیانسمجھ گئے کہ رومی انہیں اندر کی طرف سکڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔یزیدؓ بن ابی سفیان نے اپنے دستے کو اور زیادہ پھیلا دیا اورسوار دستے سے کہا کہ وہ دشمن کے پہلوؤں پر جانے کی کوشش کریں لیکن رومی تو سیلاب کی مانند تھے مسلمان جذبے سے حملے روک رہے تھے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔وہ دفاعی لڑائی لڑنے پر مجبور تھے جوابی حملہ نہیں کر سکتے تھے- رومی شہر کی طرف جانے کیبھی کوشش کر رہے تھے۔یزیدؓ نے اس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔انہوں نے شہر کے ہر دروزے کے سامنے اور کچھ دور تیر انداز کھڑے کر رکھے تھے اور ان کے ساتھ تھوڑی تھوڑی تعداد میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ سورج سر کے اوپر آگیا ۔آدھادن گزر گیا تھا مجاہدین ابھی تک رومیوں کے موج در موج حملے روک رہے تھے اور ان کے نعروں اور للکار میں ابھی جان موجود تھی،اس وقت تک زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے ان کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی۔ رومی نفری کی افراط کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے تھے لیکن مسلمانوں کے جسم اب جواب دینے لگے تھے۔گھوڑے بھی تھک گئے تھے۔دوپہر کے بعد مجاہدین کو صاف طور پرمحسوس ہونے لگا کہ شکست ان کے بہت قریب آگئی ہے۔وہ پسپائی کے عادی نہیں تھے۔انہوں نے کلمہ طیبہ کا بلند ورد شروع کر دیا اور اس کوشش میں لہو لہان ہونے لگے کہ حملہ روک کر حملہ کریں بھی ۔ان کی تنظیم ٹوٹ گئی تھی اور وہ اب انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔سالار یزیدؓ بن ابی سفیان سپاہی بن چکے تھے ۔وہ اپنے علم برداد اور محافظوں سے کہتے تھے کہ علم نہ گرنے دینا۔بڑی جلدی وہ وقت آگیا جب مجاہدینکو یقین ہو گیا کہ ایک طرف دشمن کی قید اور دوسری طرف موت ہے۔وہ جیتے جی یہ نہیں سننا چاہتے تھے کہ دشمن دمشق پر قابض ہو گیاہے۔عین اس وقت جب مجاہدیننے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے جانوں کی بازی لگا دی تھی ،رومیوں کےعقب میں شور اٹھااور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں میں بھگدڈ مچ گئی۔ دمشق کے دفاع میں لڑنے والوں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور رومیوں پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ان کی تنظیم درہم برہم ہو گئی اور ان کے حملے بھی ختم ہو گئے۔’’اسلام کے جانثاروں !‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے بلند آواز سے کہا۔’’اﷲکی مدد آگئی ہے۔ حوصلے بلند رکھو۔‘‘حقیقت یہ تھی کہ یزیدؓ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ رومیوں کے عقب میں کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے رومیوں پر حملے کاحکم دے دیا۔ رومیوں کو حملہ روکنے کا بھی ہوش نہ رہا ۔یزیدؓ بن ابی سفیان پہلو کی طرف نکل گئے۔ محافظ ان کے ساتھ تھے، وہ رومیوں کے عقب میں جار ہے تھے۔ شوروغوغا اس قدر زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی صرف یہ پتا چلتا تھاکہ رومیوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہو گئی ہے۔ کچھ اور آگے گئے تو یزیدؓ کے کانوں میں آواز پڑی: انا فارس الضدید انا خالد بن الولید ’’دمشق کے محافظو! ‘‘یزیدؓ بن ابی سفیان گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہوئے پیچھے آئے۔’’خدا کی قسم! ابنِ ولید آگیا ہے۔ابو سلیمان پہنچ گیاہے۔اﷲکی مدد پہنچ گئی ہے۔اﷲکو پکارنے والوں! اﷲنے ہماری سن لی ہے۔خداکی قسم !رومی اپنی قبروں پر لڑ رہے ہیں۔فتح حق پرستوں کی ہوگی۔‘‘ اس دور کی تحریری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یزیدؓ پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور ایسی ہی دیوانگی ان کے دستے پر طاری ہو گئی اور ا س کے ساتھ ہی رومیوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔یزیدؓ بن ابی سفیان کیلئے خالدؓ کا آجانا ایک معجزہ تھا۔لیکن خالدؓ اتنی جلدی آ کیسے گئے؟ ہم پھر گزشتہ رات مرج الروم چلے چلتے ہیں جہاں خالدؓ چھپ چھپ کر رومیوں کے کیمپ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کی فوج کا وہ حصہ جو دن کے وقت ان کے سامنے صف آراء تھا وہاں نہیں ہے۔خالدؓ کو یقین ہو گیاکہ یہ حصہ کہیں چلا گیا ہے۔تو انہوں نے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ سے بات کی۔ خالدؓ دور اندیش تھے انہیں شک ہوا کہ رومیوں کی فوج کا یہ حصہ دمشق کی جانب گیا ہے اور رومیوں کا مقصد صرف یہ ہو سکتا ہے کہ دمشق پر قبضہ کر لیا جائے۔’’ہرقل معمولی دماغ کا آدمی نہیں۔‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’اسے معلوم ہو گا کہ دمشق میں ہمای نفری بہت تھوڑی ہے میں اس کے سوااور کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ دمشق خطرے میں ہے۔اگر تو مجھے اجازت دے تو میں دمشق پہنچ جاؤں۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی سلامتی ہو ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تجھے اجازت دیتا ہوں اور تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔یہ جو رومی پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اپنے سوار دستے کو تیار کر کے دمشق کو روانہ ہو گئے۔ راستے میں کئی نشانیاں اور کئی آثا ر انہیں یقین دلاتے رہے کہ اس راستے پر ایک فوج گزری ہے۔تھیوڑورس آدھی رات سے پہلے مرج الروم سے روانہ ہو گیا۔ خالدؓ رات کے آخری پہر روانہ ہوئے اور دمشق اس وقت پہنچے جب مسلمان ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں کمک کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔خالدؓ کو وہاں وہی نظر آیا جو انہوں نے سوچا تھا۔ انہوں نے عقب سے رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ خالدؓ کو رومیوں کا پرچم نظر آیا تو اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔انہیں تھیوڈورس بوکھلاہٹ کے عالم میں دکھائی دیا۔ اسےدمشق اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اس کی فوج فتح کے قریب پہنچ کر کٹنے لگی تھی۔’’میں رومیوں کا قاتل ہوں۔‘‘ خالدؓ نے تھیوڈورس کو للکارا۔’’میں وہیں سے آیا ہوں جہاں سے رات کو تو آیا تھا۔‘‘تھیوڈورس نے تلوار نکال لی۔دونوں سالاروں کے محافظ الگ ہٹ گئے۔ خالدؓ نے تھیوڈورس کے دو تین وار بے کار کر دیئے اور اس کے اردگرد گھوڑا دوڑاتے رہے۔تھیوڈورس کو بھرپور وار کر نے کیلئے موزوں پوزیشن نہیں مل رہی تھی۔ وہ خالدؓ کے رحم و کرم پر تھا وہ مانا ہوا جنگجو سالار تھا لیکن اس کا مقابلہایسے سالار کے ساتھ آپڑا تھا جو ہر لمحہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔ آخر اس نے بڑے غصے میں خالدؓ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ نے ایک پینترا بدل کر اپنے آپ کو تھیوڈورس کی زد سے دور کر لیا اور دوسرے پینترے میں ایسا وار کیا کہ تھیوڈورس گھوڑے پر بھی دوہرا ہو گیا۔خالدؓ کے دوسرے وار نے اسے ختمکر دیا۔اب رومیوں کے کرنے کا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ بھاگیں اور اپنی جانیں بچائیں۔ وہ رومی خوش قسمت تھے جو زندہ نکل گئے۔ مالِ غنیمت میں زرہ، خودیں ،ہتھیار، اور گھوڑے قابلِ ذکر تھے۔ادھر ابو عبیدہؓ نے دوسرے رومی سالار شنس کو ختم کر دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو اسحکم کے ساتھ روانہ کر دیا کہ وہ حمص پہنچ کر وہاں کا محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓخود ایک اور اہم مقام بعلبک کی طرف روانہ ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ ان دونوں جگہوںکا محاصرہ طول پکڑے گا اور مقابلہ بڑا سخت ہو گا لیکن (مؤرخوں کے مطابق) مسلمانوں کی تلوار کی دہشت وہ کام نہیںکر سکتی تھی جو ان کے حسنِ اخلاق نے کیا۔ مسلمان جدھر جاتے تھے وہاں کے لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہو چکا ہوتا تھا کہ مسلمان کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتے اور وہ انہی شرطوں کے پابند رہتے ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔اس دور کی فاتح فوجیں سب سے پہلے مفتوح شہر کی خوبصورت عورتوں پر ہلہ بولتی تھیں۔پھر لوگوں کے گھر لوٹ لیتیں اور گھروں کو آگ لگا دیتی تھیں۔یہ اس زمانےکا رواج تھا اور اسے فاتح فوجوں کا حق سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس رواج کو نہ اپنایا بلکہ نہتے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو عبیدہؓ بعلبک پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا تو وہاں جو رومی دستہ تھا اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔خالدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو رومی سالار ہربیس باہر آگیا اور امن کے سمجھوتے کی پیش کش کی۔ابو عبیدہؓ بھی پہنچ چکے تھے ان کے حکم سے رومی سالار سے دس ہزار دینار اور زر بفت کی ایک سو قباؤں کا مطالبہ کیا گیا جو رومی سالار نے قبول کر لیا۔معاہدہ یہ ہواکہ مسلمان ایک سال تک حمص پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر اس دوران روم کی فوج نے اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی معمولی سی بھی جنگی کارروائیکی تو مسلمان صلح کے معاہدے کو منسوخ سمجھ کر جوابی کارروائی کریں گے۔ اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی شہر کے دروازے کھل گئے اور مسلمان فوج داخل ہوئی۔ مؤرخ ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حمص کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ مسلمان دکانوں میں جاتے اور جو چیز لیتے اس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے مجاہدین کو تحفے پیش کیے تو مجاہدین نے ان کی بھی قیمت ادا کی۔وہ کہتے تھے کہ مسلمان تحفے کو مالِ غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی مسلمان اپنے طورپر کوئی مالِ غنیمت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ صلح کے معاہدے کے بعد اسلام مالِ غنیمت کو جائز نہیں سمجھتا۔ایسے مقامات بھی آئے جہاں کے لوگوں نے مسلمان فوج کا باقاعدہ استقبال کیا، مثلاً نومبر ۶۳۵ ء (رمضان ۱۴ ھ) مسلمان فوج حمص سے حما گئی تو شہری باہر آگئے اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ۔معرۃ النعمان کے شہریوں نے مسلمانوں کا استقبال اس طرح کیا کہ پہلے سازندے ساز بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے باہر آئے۔ان کے پیچھے معززین آئے اور جزیہ پیش کرکے شہر ابو عبیدہؓ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد ان قصبوں اور شہروں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔’’مسلمانہمارے جال میں آگئے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔’’میں سردیوں کے انتظار میں تھا۔ عرب کے یہ مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں اور اونٹنی کا ہی دودھ پیتے ہیں۔ ریگستان کے ان باشندوں نے کبھی اتنی سردی نہیں دیکھی۔یہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی سردی ان کے جوش اور جذبے کو منجمند کر دے گی۔پھر موسم سرما ختم ہونے تک مسلمان ختم ہو جائیں گے۔ہم انہیں بڑی آسانی سے شکست دیں گے۔ ان کے خیمے انہیں سردی سے نہیں بچا سکیں گے۔‘‘ ہرقل نے حکم دیا کہ حمص سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیاجائے۔کچھ دنوں بعد ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ رومیوں کی کمک حمص پہنچ گئی ہے۔ رومیوں کی اس کارروائی کے بعد حمص کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓکہیں اور تھے اور اطلا ع ملتے ہی وہ اپنے دستوں کو ساتھ لے کر حمص جا پہنچے۔ خالدؓ پہلے پہنچے تھے وہ حمص کے قریب گئے توباہر رومی فوج لڑنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔خالدؓ نے اس فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی پیچھے ہٹتے گئے اور قلعے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازے بند کردیئے۔اس کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بھی اپنے دستوں کے ساتھ آن پہنچے۔’’ابو سلیان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا ۔’’یہ محاصرہ تیرا ہے اور تو اس کا سالار ہے۔‘‘ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو دیا۔خلیفۃ المسلمین عمرؓ کے احکام کے مطابق سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ ہی تھے-

No comments:

Post a Comment

The day of the most tough error For the Deniers

For the deniers  . The day of the most Tough error.  For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...