Visitors

قسط نمبر 60

رومیوں نے پہلے معرکوں میں یہ نعرہ سنا تھا۔اس نعرے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے انہیں جس حالت میں کاٹا اور بھگایا تھا، اسے تو وہ باقی عمر نہیں بھول سکتے تھے۔رومی سوار اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمانوں کو تو بھول ہی گئے۔خالدؓ نے اپنے سواروں کو پھیلا کر برق رفتار حملہ کرایا تاکہ رومیوں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں آنے کی مہلت ہی نہ ملے۔خالدؓ کو اپنی ایک کمزوری کا احسا س تھا۔وہ دمشق سے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ابو القدس تک پہنچے تھے۔گھوڑے تھک گئے تھے۔ان کےجسموں سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔خالدؓ کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کو جلدی بھگایا جائے ورنہ گھوڑے جواب دے جائیںگے۔ضرار بن الازور نے اپناوہی کمال دکھایاجس پر وہ رومیوں میں مشہور ہو گئے تھے۔انہوں نے اپنی خود ، زرہ، اور اپنی قمیض بھی اتار پھینکی، اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔رومی سوار اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔وہ اپنے نرغےمیں لیے ہوئے مسلمان سواروں میں سے کئی ایک کو شہید اور زیادہ ترکو شدید زخمی کر چکے تھے،ان میں سے جو بچ گئے تھے، انہیں خالدؓ کے آجانے سے نیا حوصلہ ملا۔رومی خالدؓ اور ضرار کے ---------------------- مُڑے تو پیچھے سے ان بچے کچھے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیاجو کچھ دیر پہلے تک ان کے نرغے میں آئے ہوئے تھے۔معرکہ خونریز اور تیز تھا۔اب رومی گھیرے میں آگئے تھے۔ان کی تعداد زیادہ تھی۔وہ سکڑتے تھے تو ان کے گھوڑوں کو کھل کر حرکت کرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔مسلمان سواروں نے انہیں بری طرح کاٹا اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ رومی سوار معرکے سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔آخر وہ اپنی بہت سی لاشوں اور شدید زخمیوں کو پیچھے چھوڑکر بھاگ گئے۔ان مسلمان سواروں کا جانی نقصان کم نہ تھا جو رومیوں کے گھیرے میں لڑتے رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ میلے کا سامان اکٹھا کیا جائے۔انہوں نے بہت سےمجاہدین کو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے پرلگا دیا۔خالدؓ کی اپنی یہ حالت تھی کہ ان کے جسم پر کئی زخم آئے تھے اور ان کے کپڑے خون سے سرخ ہو گئے تھے۔انہیں ان زخموں کی جیسے پرواہ ہی نہیں تھی۔زخم خالدؓ کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ان کے جسم پر اس وقت تک اتنے زخم آچکے تھے کہ مزید زخموں کی جگہ ہی نہیں تھی۔خالدؓ واپس دمشق آئے۔وہ جو مالِ غنیمت ساتھ لائے تھے وہ بہت زیادہ اور قیمی تھا۔زخمی ہو کر گرنے والے اور مرنے والے رومیوں کے سینکڑوںگھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے مگر اسمالِ غنیمت کیلئے بڑی قیمتی جانوں کی قیمت دی گئی تھی۔ ابو عبیدہؓ کو اس جانی نقصان پر بہت افسوس تھا۔البتہ انہیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ خالدؓ نے اپنے خلاف یہ شک دور کر دیاتھا کہ معزولی کی وجہ سے ان میں پہلے والی دلچسپی اور جوش و خروش نہیں رہا۔خالدؓنے اپنا جسم زخمی کراکے یہ ثابت کر دیاتھا کہ معزولی کا ان پر ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہخلافت کیلئے مدینہ بھیجا، اور اس کے ساتھعمرؓ کو پوری تفصیل بھی لکھی کہ انہوں نے کیا کاروائی کی تھی۔اس سے کیا صورتِ حال پیدا ہوئی اور خالدؓ نے کیا کارنامہ کیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بے تحاشہ تعریف لکھی۔ہر محاذسے اور ہر میدان سے رومی پسپا ہو رہے تھے۔رومیوں کا شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں تھا۔اس کے ہاں جو بھی قاصد آتا تھا وہ ایک ہی جیسی خبر سناتا تھا:’’اس قلعے پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔‘‘’’فلاں میدان سے بھی اپنی فوج پسپا ہو گئی ہے۔‘‘’’مسلمان فلاں طرفپیشقدمی کر گئے ہیں۔‘‘’’ہمارے فلاں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا ہے۔‘‘ہر قل کے کانوں میں اب تک کوئی نئی بات پڑی ہی نہیں تھی۔نیند میں بھی وہ یہی خبریں سنتا ہو گا۔اس کے وزیر مشیر اور سالار وغیرہ اب اس کے سامنے کوئی شکست کا پیغام لے کر جانے سے ڈرتے تھے۔لیکن انہیں اس کے سامنے جانا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ شکست کی باتیں کرنی اور سننی پڑتی تھیں۔وہ انطاکیہ کی ایک شام تھی۔انطاکیہکی شامیں حسین ہوا کرتی تھیں۔یہ شہر سلطنتِ روما کا ایک اہم اور بارونق شہر تھا۔روم کے اعلیٰ حکام، امراء اور وزراء یہاں رہتے تھے۔اب تو کچھ عرصے سے شہنشاہِ روم ہرقل نے اسے عارضی دارالحکومت اور فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تھا۔رومی جنگجو تھے۔اُس دور میں ان کی سلطنت دنیا کی سب سے وسیع اورمستحکم سلطنت تھی۔استحکام کی وجہ یہ تھی کہ روم کی فوج مستحکم تھی۔اسلحہ کی برتری اور نفری کی افراط کے لحاظ سے یہ فوج اپنے دشمنوں کیلئے دہشت ناک تھی۔اس فوج نے اور اس کے سالاروں اور دیگر اعلیٰ حکام نے انطاکیہ کو پر رونق شہر بنا رکھا تھا۔عیش و عشرتکا ہرسامان موجود تھا۔وہاں قحبہ خانے تھے۔رقص اور نغمے تھے اور وہاں نسوانیحسن کی چلتی پھرتی نمائش لگی رہتی تھی۔وہاں شامیں مسکراتی اور راتیں جاگتی تھیں لیکن اب انطاکیہ کی شامیںاداس ہو گئی تھیں۔ فوجی یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ جب کوئی نیا دستہ آتا تھا تو قحبہ خانوں کی رونق بڑھ جاتی تھی اور چلتی پھرتی طوائفوں میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مگر انطاکیہ میں باہر سے جو فوجی آتے تھے وہ زخمی ہوتے تھے، اور جو زخمی نہیں ہوتے تھے ان کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہوتی تھی،ہر فوجیشکست کی تصویر بناہوتا تھا۔ان کی چال میں اور ان کے چہروں پر شکست صافنظر آتی تھی۔ غیر عورتیں ان کے قریب کیوں آتیں، ان کی اپنی بیویاں انہیں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتی تھیں۔ان رومی فوجیوں نے روم کی جنگی روایات کو توڑ دیا تھا،قیصرِ روم کی عظمت کو پامال کر دیا تھا۔انطاکیہ میں جو رومی عورتیں تھیں، انہوں نے ہرقل کو بھی نہیں بخشا تھا،وہ شام انطاکیہ کی ایک افسردہ شاموں میں سے ایک شام تھی۔ہرقل شاہی بگھی پر کہیں سے آرہا تھا۔اس کے آگے آٹھ گھوڑے شاہانہ چال چلتے آرہے تھے۔ان کے سوار ہرقل کے محافظ تھے۔ان سواروں کی شان نرالی تھی۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیںجن کی انیاں اوپر کو تھیں ، اور ہر برچھی کی انی سے ذرا نیچے ریشمی کپڑے کی ایک ایک جھنڈی تھی۔بگھی کے پیچھے بھی آٹھ دس گھوڑ سوار تھے۔ایک شور اٹھا۔’’ شہنشاہ کی سواری آرہی ہے۔‘‘لوگ اپنے شہنشاہ کو دیکھنے کیلئے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے ان میں عورتیں بھی تھیں۔عورتیں عموماً اپنے دروازوں کے سامنے یا منڈیروں پر کھڑی ہو کر اپنے شہنشاہ کو گزرتا دیکھاکرتی تھیں لیکن اس شام چند ایک عورتیں ہرقل کے راستے میں آگئیں۔اگلے دو سوار محافظوں نے گھوڑے دوڑائے اور عورتوں کو راستے سے ہٹانے لگے۔لیکن عورتیں غل مچانےلگیں کہ وہ اپنے شہنشاہ سے ملنا چاہتی ہیں۔دواور سوار آگے بڑھے کیونکہ عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ہرقل کی بگھی ان تک پہنچ گئی۔وہ عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔اس نے بگھی رکوالی اور اُتر آیا۔’’چھوڑ دو انہیں۔‘‘ہرقل نے گرج جیسی آواز میں کہا۔’’انہیں مجھ تک آنے دو۔‘‘وہ آگے گیا،اور عورتوں نے اسے گھیر لیا۔وہ سب بول رہی تھیں۔ ’’میں کچھ نہیں سمجھ رہا۔‘‘ہرقل نے بلند آواز سے کہا۔’’کوئی ایک بولو، میں سنوں گا۔‘‘’’شہنشاہِ روم!‘‘ ایک عورت بولی۔’’توکچھ نہیں سمجھے گا۔‘‘’’جس نے سلطنتِ روم کی تباہی برداشت کرلی ہے وہ غیرت والی عورت کی بات نہیں سمجھے گا۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔’’ہم سب رومی ہیں۔ہم مقامی نہیں۔یہاں کی عورتیں تیرے راستے میں نہیں آئیں گی۔رومی چلے جائیں، عرب کے مسلمان آجائیں، انہیں کیا! بے عزتی تو ہماری ہو رہی ہے۔ بے عزتی روم کی ہو رہی ہے۔‘‘’’اب آگے بولو۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جوکہنا ہے وہ کہو۔‘‘’’کیا تو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تو نے ہمیں مسلمانوں کے حوالے کرناہے؟‘‘ایک عورت نے کہا۔’’اس کے سوا اور کوئی بات کانوں میں نہیں پڑتی کہ فلاں شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور وہاں کی رومی عورتیں مسلمانوں کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔‘‘’’ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تو ہمیں آگے جانے دے۔‘‘ایک اور عورت نےکہا۔’’گھوڑے برچھیاں اور تلواریں ہمیں دے دے۔‘‘’’جس فوج سے فارسی بھی ڈرتے تھے۔‘‘ایک اور بولی۔’’وہ فوج اب ڈرے ہوئے، زخمی اور بھگوڑے سپاہیوں کا ہجوم بن گئی ہے۔‘‘’’یہاں اب روم کا جو بھی فوجی آتا ہے کسی نہ کسی قلعے یا میدان سے بھاگا ہوا آتا ہے۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔ہرقل کے محافظ ڈر رہے تھے کہ شہنشاہِ روم کا عتاب ان پر گرے گا کہ وہ چند ایک عورتوں کو اس کے راستے سے نہیں ہٹا سکے۔تماشائی اس انتظار میں تھے کہ ہرقل ان تمام عورتوں کو گھوڑوں تلے کچل دینے کا حکم دے گا لیکن ہرقل خاموشی سے ، تحمل اور بردباری سے عورتوں کے طعنے سن رہا تھا۔شاید اس لئےکہ وہ مقامی نہیں رومی عورتیں تھیں۔’’ہماری فوج بزدل ثابت ہوئی ہے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں بزدل نہیں ہو گیا۔شکست کھا کر جو بھاگ آئے ہیں وہپھر لڑیں گے ۔میں نے شکست کو قبول نہیں کیاہے۔‘‘’’پھر ہمارا شہنشاہ کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ایک عورت نے پوچھا۔’’تم جلد ہی سن لو گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں زندہ ہوں۔میں جو سوچ رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔فتح اور شکست ہوتی ہی رہتی ہے۔وہ قوم ہمیشہ دوسروں کی غلام رہتی ہے جو شکست کو تسلیم کر لیتی ہے۔میں تمہیں کسی کا غلام نہیں بننے دوں گا،مسلمانوں نے جہاں تک آنا تھا وہ آچکے ہیں۔اب میری باری ہے۔وہ میرے پھندے میں آگئے ہیں۔اب وہ زندہواپس نہیں جائیں گے۔انہوں نے جو لیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ دیں گے……میرے لیے دعا کرتی رہو، تم بہت جلد خوشخبری سنو گی……اور تم اپنے خاوندوں کے، اپنے بھائیوں کے، اپنے باپوں کے، اور اپنے بیٹوں کے حوصلے بڑھاتی رہو۔‘‘’’ہم ان پر اپنے گھروں کے دروازے بند کر دیں گی۔‘‘ایکعورت نے کہا۔’’تم انہیں گلے لگاؤ گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب وہ فاتح بن کر تمہارے سامنے آئیں گے۔‘‘عورتوں نے اپنے شہنشاہ کوراستہ دے دیا۔ ہرقل نے ان عورتوں کی محض دل جوئی نہیں کی تھی، مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ شکست تسلیم کرنے والا جنگجو تھا ہی نہیں، اور وہ شہنشاہ بعد میں اور سپاہی پہلے تھااور وہ اپنے دور کا منجھا ہوا جرنیل تھا۔یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ خالدؓ کی ٹکر کا جرنیل تھا اور جنگی چالوں میں اس کی مہارت کا انداز اپنا ہی تھا۔اگر وہ صرف شہنشاہ ہوتا تو اپنی سواری کے راستے میں ان عورتوں کیرکاوٹ کو برداشت نہ کرتا۔ انہیں سزا دیتا لیکن اس نے ان عورتوں سے حوصلہ لیا اور انکا حوصلہ بڑھایا۔اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ کسی طرف سے شکست کی اور اس کی فوج کی پسپائی کی اطلاع آتی تھی تو اس کے حکام اس کے سامنے آنے سے گریز کرتے تھے۔ایسا ہی ایک موقع تھا کہ اس کا ایک سالار جو مشیر کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے سامنے گیا۔اس سالار کے چہرےپر مایوسی کا جو تاثر تھا وہ ہرقل نے بھانپ لیا۔’’کیا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’مرجالدنیاج سے قاصد آیا ہے۔‘‘سالار نے کہا۔’’تو کہتے کیوں نہیں کہ وہ ایک اور پسپائی کی خبر لایا ہے۔‘‘ہرقل نے جوشیلے لہجے میں کہا۔’’اپنے دلوں سے میرا خوف نکالتے کیوں نہیں؟شکست اور پسپائی کے نام سے گھبراتے کیوں ہو؟……بولو؟‘‘’’ہاں شہنشاہ!‘‘سالار نے کہا۔’’قاصد پسپائی کی خبر لایا ہے……اور وہاں سے بھاگے ہوئے سپاہی یہاں آنا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘’’آنے دو انہیں!‘‘ ہرقل نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصہ نہیں تھا، اور اس کے لہجے میں شاہانہ جلال بھی نہیں تھا۔’’ان کا حوصلہ بڑھاؤ، کوئی انہیں شکست اور پسپائی کا طعنہ نہ دے۔یہی سپاہی شکست کو فتح میں بدلیں گے۔‘‘’’سپاہیوںکا حوصلہ تو بحال ہو جائے گا۔‘‘سالار نے کہا۔’’لیکن لوگوں کا حوصلہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔لوگ مسلمانوں کو جنات اور بھوت سمجھنے لگے ہیں، ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں جو لوگوں کو بزدل بنا رہی ہیں۔‘‘’’جانتے ہو یہ افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے اپنے سالار، کماندار، اور سپاہی۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ تو بے جگری سے لڑتے تھے لیکن ان کا مقابلہ جنات سے ہو گیا۔‘‘’’شہنشاہِروم!‘‘سالار نے کہا۔’’مسلمانوں کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے……ہمارے جس شہر کے لوگ ان سے صلح کا معاہدہ کرلیتے اور جزیہ ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ مسلمان بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ان کی عورتوں اور ان کی جوان لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ان کی جان و مال کیحفاظت کرتے ہیں، ان کے مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں، یہ خبریں سارے علاقے میں پھیل جاتی ہیں، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی فوج کا ساتھ چھوڑ دیتے اور اسے صلح پر مجبور کردیتے ہیں…… اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔‘‘’’اس کا علاج صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ اور اس کا بندوبست ہو رہا ہے۔‘‘ ابوالقدسمیں ہرقل کو جو چوٹ پڑی تھی، اس نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔اسے اس معرکے کی تفصیلی اطلاع ملی تھی، ابو عبیدہؓ ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔رومی خوش تھے کہ مسلمانوں کا ایک دستہ تو پھندے میں آیا لیکن خالدؓاور ضرار نے بروقت پہنچ کر نہ صرف رومیوں کا پھندہ توڑ ڈالا تھا، بلکہ انہیں ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا کر مالِ غنیمت سے مالامال ہو کر لوٹے تھے۔ہرقل کو مسلمانوں کی برق رفتاری نے پریشان کر دیاتھا۔اس نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں کی فوج ایک سے دوسری جگہ حیران کن تیزی سے پہنچتی تھی اور میدانِ جنگ میںسالاروں کی جنگی چالوں پر ان کے دستے بہت ہی تیزی سے جگہ بدلتے اور چالوں کو کامیاب کرتے تھے۔اس کے بعد تو جیسے ہرقل نے راتوں کو سونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس نے اسی روز اپنی سلطنت کے دور دراز گوشوں تک قاصد دوڑا دیئے تھے۔اس نے حکم یہ بھیجاتھا کہ زیادہسے زیادہ فوجی دستے انطاکیہ بھیج دیئے جائیں، وہ سلطنت کی تمام تر فوج تو اکٹھی نہیں کر سکتا تھا، ہر جگہ فوج کی ضرورت تھی۔اس نے اتنے دستے مانگے تھے جن کے آجانے سے کسی بھی جگہ کا دفاع کمزور نہیں ہوتا تھا۔جن علاقوں سے دستے آئے، ان میں شمالی شام، یورپ کے چند شہر، اور جزیرے شامل تھے۔ہرقل نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ دستے بہت تیزی سے آئیں۔جب یہ آنے لگے تو ان میں سے بعض کو انطاکیہ میں رکھا گیا اور دوسروں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے سے ذرا ہی دور ایک مقامبیسان پر بھیج دیاگیا۔ہرقل نے اپنے مشیروں اور سالاروں کو بلایا۔ ان میں سقلار، شنس، اور تھیوڈورس خاص طور پر قابلِ ذکرتھے ان تینوں کو محاذوں سے بلایا گیا تھا۔ہرقل نے ان سب کو بتایا کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے اس نے کیا بندوبست کیا ہے اور سالاروں نے کیا کرنا ہے۔’’تم نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان کس طرح لڑتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔’’شکست اور پسپائیوں سے تمہیں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ان سے تمہیں تجربہ حاصل ہوا ہے۔اگر تم نے کچھ نہیں سیکھا تو تمہارے لیے یہی اک راستہ ہے۔جاؤ اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلو۔ قیصرِروم کی عظمت کو مسلمانوں کے قدموں میںڈال دو اور صلیب کو بحیرہ روم میں پھینک کر مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔تمہیں اپنی جانیں اپنی بیویاں اور اپنے مال واموال زیادہ عزیز ہیں۔اسی کانتیجہ ہے کہ عرب کے لٹیروں کا ایک گروہ تمہیں شکست پہ شکست دیتا چلاجا رہاہے۔‘‘سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ہرقل کی نگاہیں ہر ایک پر گھوم گئیں۔’’شہنشاہِ روم!‘‘ اس کے سالار تھیوڈورس نے سکوت توڑا۔’’ہم پیچھے ہی نہیں ہٹتے آئیں گے۔میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے زندہ آیا تو شکست کھاکر نہیں آؤں گا۔اگر میں نے شکست کھائی تو میری لاش بھی یہاں نہیں آئے گی۔‘‘اس ایک سالار کے بولنے سے نہ صرف سناٹا ٹوٹا بلکہ سب میں جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔سب نے ہرقل کو یقین دلایا کہ انہیں سلطنت روم سے زیادہ اور کوئی چیز عزیز نہیں - ’’میں نے مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کیلئے جو بندوبست کیا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب تک ہماری فوج مختلف جگہوں پر بٹ کر لڑتی رہی ہے۔ ایک جگہ سے ہمارے فوجی بھاگے تو انہوں نے دوسری جگہ جاکر وہاں کے دستوں میں بددلی پھیلائیاور اپنے آپ کوشکست کے الزام سے بچانے کیلئے ایسی باتیں کیں جن سے وہاں کے دستوں پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی۔اب میں فوج کو یکجا کرکے لڑاؤں گا……‘‘’’تم نے دیکھا ہے کہ میں نے کہاںکہاں سے دستے منگوائے ہیں اور کس قدر لشکر جمع ہو گیا ہے۔میری نظر دمشق پر ہے لیکن ہم دمشق پر حملہ نہیں کریں گےنہ اس کا محاصرہ کریں گے۔ہم دمشق سے دور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں زیادہ نفری کے دستوں سے لڑاکر مسلمانوں کے رسد کے وہ راستے بند کردیں گے جو عرب سے دمشق کو جاتے ہیں۔ ہم دمشق میں یا اس کے گردونواح میں کوئی لڑائی نہیں لڑیں گے،بلکہ مسلمان تنگ آکر لڑنا بھی چاہیں گے تو ہم انہیں نظر انداز کریں گے۔ہم ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ وہ لڑنے کے قابل رہ ہی نہیں جائیں گے۔انہیں نہ کہیں سے رسد پہنچ سکے گی نہ کمک۔شہر کے لوگ ہی قحط سے تنگ آکرانہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیں گے۔اگر وہ دمشق سے نکل گئے تو ہم کہیں بھی ان کے قدم جمنے نہ دیں گے۔یہ بھی خیال رکھو کہ ہماری فوجوں کا اجتماع ایسے خفیہ طریقہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہیں ہو گی۔‘‘ہرقل کا تو خیال تھا کہ اس کے لشکر کا اجتماع خفیہ رکھا گیاہے لیکن مسلمانوں کے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ کے ساتھ خالدؓتھے۔خالدؓ نے نہایت مضبوط اور تیز جاسوسی نظام ترتیب دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ بن ولید کو سوار دستے کا سالار بنا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنا مشیر بھی سمجھتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق ابو عبیدہؓ سالاری کی مہارت رکھتے تھے اور جنگی امور کو بھی پوری طرح سمجھتے تھے لیکن ان میں وہ تیز رفتاری نہیں تھی جو خالدؓ میں تھی۔خالدؓ اپنے فیصلوں میں بڑے خوفناک قسم کے خطرے بھی مول لےلیا کرتے تھے۔اس کے برعکس ابو عبیدہؓ احتیاط کے قائل تھے۔اپنی اس عادت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے خالدؓ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھا۔وہ کوئی بھی منصوبہ بناتے یا فیصلہ کرتے تھے تو اس میں خالدؓ کے مشوروں کو خاص طور پر شامل کیاکرتے تھے۔ خالدؓ جاسوسی اور دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ توجہ دیاکرتے تھے۔اب یہ ان کی ذمہ داری نہیں رہی تھی کیونکہ یہ ذمہ داری سالارِ اعلیٰ کی تھی، اور خالدؓدوسرے سالاروں کی طرح ایک عام سالار تھے، لیکن اپنی معزولی کے باوجود وہ اپنے فرائض سے بے انصافی گوارا نہیں کرتے تھے۔انہوں نے جاسوسی کے نظام پر پہلے کی طرح توجہ دیئے رکھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جاسوس رومیوں کی سلطنت کے اندردور تک چلے گئے تھے۔ایک روز ایک جاسوس آیا۔وہ بہت دور سے آیا تھا۔اس نے بتایا کہ رومیوں کاایک لشکر بحیرہ روم کے راستے کشتیوں پر آیا ہے۔اس جاسوس نے اپنے ان جاسوسوں سے رابطہ کیا جو اور آگے تک گئے ہوئے تھے۔وہ ان سب کی اطلاع لے کر بڑی ہی تیز رفتار سے دمشق پہنچااور یہ اطلاع دی کہ رومیوں نے کم و بیش ایک لاکھ نفری کا لشکر دریائے اردن کے مغربمیں جمع کر لیا ہے۔تاریخ کے مطابق بیسان کے مقام پر دسمبر ۶۳۴ء کے آخری اور ذیعقد ۱۳ھ کے پہلے ہفتے میں رومیوں کی فوج کا یہ اجتماع ہوا تھا۔جاسوس نے اپنے اندازے کےمطابق اس لشکر کی تعداد ایک لاکھ بتائی تھی اصل میں رومی فوج کی تعداد اسّی ہزار تھی۔اتنی بڑی تعداد اکٹھی کرنے کا مطلب یہی لیا جا سکتا تھا کہ رومی بہت بڑی جنگی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔’’میرے عزیز ساتھیو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے سالاروں سے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔شکر ادا کرو اﷲکی ذاتِ باری کا جس نے ہمیں ہر میدان میں فتح عطا کی ……میں تمہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں جہاں سے ہماری واپسی ناممکن ہو گئی ہے۔ا ﷲنے ہمیں بہت سخت امتحان میں ڈالا ہے۔اگرہم اس امتحان میں پورے اترے تو یہ ایک روایت بن جائے گی جو ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔مت بھولناکہ ہم نہ مالِ غنیمت کیلئے لڑ رہے ہیں، نہ ہمارا مقصد اقتدار ہے۔ اﷲاور اسکے رسول (ﷺ)نے ہمیں بنی نوع انسان کو ظلمت اور غلامی سے نجات دلانے کا فرض سونپا ہے،اب دشمن نے ہمارے سامنے دیواریں کھڑی کر دی ہیں……‘‘’’رومی کم و بیش ایک لاکھ کا لشکر لے کر آئے ہیں۔اس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اور یہی ہو سکتا ہے کہ رومی دمشق پر حملہ کریں گے۔اگر دمشق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کہیں قدم جمانا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔دشمن نے بحیرہ روم سے انطاکیہ، بیروت اور ایک دو اور بندرگاہوں پر یورپ سے فوج لا اتاری ہے۔ہمیں سب سے پہلے دمشق کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے لیکن ہم ایک ہی جگہ پر جمع نہیں ہو جائیں گے۔‘‘’’ہماری تعداد اس وقت کتنی ہوگی؟‘‘ایک سالار نے پوچھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا۔’’ہماری تعداد پہلے سے کچھ زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’پچھلی لڑائیوں میں جو مجاہدین زخمی ہوئے تھے وہ الحمدﷲصحت یاب ہوکرواپس آچکے ہیں۔میرے اندازے کے مطابق ہماری نفری تیس ہزار تک ہو جائے گی۔ہمیں ایک سہولت اور حاصل ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجاہدین نے کافی آرام کر لیا ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے اور خالدؓ نے مل کر منصوبہ تیار کیا کہ رومیوں کے اس لشکر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔امیر المومنین عمرؓ نے محاذ پرلڑنے والے سالاروں پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کسی بڑی جنگ کا منصوبہ بنا کر ان سے منظور کرایا جائے۔عمرؓ غیر معمولی فہم و فراست کے مالک تھے۔بعض جگہوں کی پلاننگ وہ خود مدینہ بیٹھ کر کرتے اور محاذ کو بھیجتے تھے۔ابو عبیدہؓ نے اس پابندی کے مطابق ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو روانہ کر دیا۔ اسے جو پیغام دیا گیا اس میں نئی صورتِ حال لکھی گئی تھی اور مجوزہ منصوبہ بھی تحریر تھا۔وقت بہت تھوڑا تھا۔دشمن بے تحاشا نفری ساتھ لایا تھا۔کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کس لمحے وہ کیا کارروائی شروع کرد ے، لیکن مسلمانوں نے پیغام رسانی کا نظام اتنا تیز اور محفوظ بنا رکھا تھا کہ تھوڑے سے وقت میں دور کے فاصلے پر پیغام پہنچ جاتاتھا۔امیرالمومنینؓ نے صورتِ حال اور منصوبے کا جائزہ لیا۔اس میں کچھ ردوبدل کیا، اور منصوبے کی منظوری دے دی، یزیدؓ بن ابی سفیان دمشق میں تھے،وہ سالار بھی تھے اور دمشق کے حاکم بھی۔انہیں پیغام بھیجا گیا کہ دشمن کیاصورتِ حال پیدا کر رہا ہے،اور وہ بدستور دمشق میں رہیں۔انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ دمشق کے شمال مغرب پر جاسوسوں کی دیکھ بھال کرنے والے آدمیوں کے ذریعہ نظر رکھیں کیونکہ توقعیہی ہے کہ رومی ادھر سے حملہ کریں گے۔سالار شرجیلؓ بن حسنہ اپنے دستوں کےساتھ اس علاقے میں تھے جس میں بیسان اور فحل واقع تھے۔خلیفہ عمرؓ نے خاص طور پر لکھا تھا کہ سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو اس جنگ کیلئے سالار مقرر کیا جائے جس کی رومی تیاری کر کے آئے ہیں۔خالد کو اس فوج کے ہراول دستے کی سالاری سونپی گئی تھی۔جنوری ۶۳۵ء کے دوسرے ہفتے میں ان دستوں نے جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی، کوچ کیا۔انہیں بیسان سے کچھ دور فحل کے مقام تک پہنچنا تھا۔یہ دستے جب فحل پہنچے تودیکھا کہ وہاں رومی فوج نہیں تھی۔ وہاں روم کی پوری فوج کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خبر ملی کہ چند ایک دستے وہاں موجود ہیں لیکن یہ دستے جا چکے تھے۔وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ رومیوں کے دستے بیسان چلے گئے ہیں جہاںان کے پورے لشکر کا اجتماع ہے۔

No comments:

Post a Comment

The day of the most tough error For the Deniers

For the deniers  . The day of the most Tough error.  For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...