شرجیلؓ اور ان کے کمانداروں نے اپنے دستوں کو محاصرے کی ترتیب سے میدان کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔وہ اتنا پیچھے ہٹ آئے تھے کہ رومی قلعے سے دور آگئے۔اب شرجیلؓ نے اپنے انداز سے جوابی حملہ کیا۔رومی اپنے حملے میں اتنے مگن تھے کہ وہ بکھرے رہے۔مسلمانوں نے حملہ کیا تو رومی بے ترتیبی کی وجہ سےحملے کا مقابلہ نہ کر سکے۔وہ قلعے کی طرف دوڑے تو اُدھر سے مسلمانوں کے تیروں نے انہیں گرانا شروع کر دیا۔مسلمانوںکی تیر اندازی بہت ہی تیز اور مہلک تھی۔رومیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا، اب جذبہ بالکل ہی ختم ہو گیا،رومیوں کا جانی نقصان اتنا زیادہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔آخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور شرجیلؓ کی شرطیں ماننے پر آمادگی ظاہرکر دی۔انہوں نے جزیہ اور کچھ محصولات کی ادائیگی کرنے کی شرط بھی قبول کر لی،اور قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔فروری۶۵۳ء (ذی الحج ۱۳ھ)کے آخری ہفتے میں بیسانمکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔اس وقت ابو عبیدہ ؓاور خالدؓ فحل کے شمالی علاقے میں پیشقدمی کر رہے تھے۔انطاکیہ کے بڑے گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔یہ بہت بڑا گھنٹہ تھا۔اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی تھی۔نور کے تڑکے کی خاموشی میں اس کی ’’ڈن ڈناڈن‘‘ اور زیادہ اونچی سنائی دے رہی تھی۔یہ ۶۳۵ء (۱۴ھ) کے مارچ کا مہینہ تھا۔گرجے کا گھنٹہ تو بجا ہی کرتا تھااور لوگ اس کی آواز میں تقدس محسوس کرتے تھے۔ان پر ایسا اثر طاری ہو جاتا تھا جو ان کی روحوں کو سرشار کر دیا کرتا تھا۔مگر مارچ ۶۳۵ء کی ایک صبح اس گھنٹے کی مترنم آواز میں کچھ اور ہی تاثر تھا۔اس تاثر میں مایوسی بھی تھی اورخوف بھی۔اس گھنٹے کی آوازیں شہنشاہ ہرقل کے محل میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ہرقل سونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو جاگنے کا وقت تھا لیکن وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔محاذ کی خبریں اسے سونے نہیں دیتی تھیں،اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنے اور انہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ بیکار ثابت ہو رہے تھے۔مسلمان بڑھے چلے آرہے تھے،ہرقل راتوں کو جاگتا اور نئے سے نئے منصوبے بناتا تھا۔ لیکن اس کا ہر ارادہ اور ہر منصوبہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداجاتا تھا۔ایک نہایت حسین اور جوان عورت اس کے کمرے میں آئی،وہ اس کی نئی بیوی زاران تھی۔’’شہنشاہ آج رات بھی نہیں سوئے۔‘‘زاران نے کہا۔’’کیوں نہیں آپ ان سالار اور سپاہیوں کو سب کے سامنے تہہ تیغ کردیتے جو شکست کھا کر واپس آتے ہیں؟وہ اپنی جانیںبچا کربھاگ آتے ہیں اور دوسرے سپاہیوں میںبددلی پھیلاتے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل پلنگ پر لیٹا ہوا تھا، زاران اس کے پاس بیٹھ گئی۔ہرقل اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔’’زاران!‘‘ اس نے رُک کر کہا۔’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، تم کہتی ہو کہ بچ کہ آنے والوں کو میں قتل کردوں۔میں ان کا خدا نہیں۔یہی ہیں جنہوں نے فارسیوں کو میرے قدموں میں بٹھادیا تھا۔فارسی ایسے کمزور تو نہیں تھے،ہماری ٹکرکی قوم ہے۔مسلمانوں نےانہیں بھی ہر میدان میں شکست دی ہے۔ابوہ ہمیں بھی شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔میں مسلمانوں کی قدر کرتا ہوں۔اگر ہمارےسالاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں تو اس کا مطلبیہ نہیں کہ وہ کمزور ہیں۔بلکہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں۔ان کے سالاروں میں عقل زیادہ ہے۔‘‘’’تو کیا شہنشاہ مایوس ہو گئے ہیں؟‘‘زاران نے پوچھا۔’’نہیں!‘‘¬ہرقل نے کہا۔’’یہ مایوسی نہیں۔ایک جنگجو ایک جنگجوکی تعریف کر رہا ہے۔مسلمان اوچھے دشمن نہیں۔اگر وہ مجھ سے ہتھیار ڈلوالیں گے تو تم میرے پاس ہی رہو گی۔وہ تمہیںمجھ سے نہیں چھینیں گے۔‘‘زاران اس کا دلبہلانے آئی تھی۔اس کے کچھے تنے اعصاب کو سہلانے آئی تھی۔وہ ہرقل کی چہیتی بیوی تھی۔وہ ہرقل کو بہلانا جانتی تھی۔ لیکن ہرقل نے اسے زیادہ توجہ نہ دی۔گرجے کا گھنٹہ بج رہاتھا۔’’لوگ گرجے کو جا رہے ہیں۔‘‘زاران نے کہا۔’’سب آپکی فتح کیلئے دعائیں کریں گے۔‘‘ہرقل نے زاران کو کنکھیوں دیکھاجیسے اس عورت نے اس پر طنز کیا ہو۔ہرقل نے زاران کی بات کوبھونڈا سا مذاق سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔’’صرف دعائیں شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتیں زاران!‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جاؤ! مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘شہنشاہ ہرقلکو اطلاع مل چکی تھی کہ اس کے سالار سقلار نے مسلمانوں کا راستہ روکنے اور انہیں پھنسانے کیلئے جو دلدل پھیلائی تھی، اسی دلدل میں اس کے اپنے سپاہیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور فحل کے مقام پر سالار سقلار مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے،اور بیسان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے- ہرقل کا یہ منصوبہ تباہ ہو چکا تھا کہ دمشق پر حملہ نہیں کرے گا، نہ اس کا محاصرہ کرے گا بلکہ اپنی فوج کو دمشق سے دور رکھ کر دمشق کو جانے والے راستے بند کر دے گا۔ پھر مسلمانوں کو بکھیر کر لڑائے گا۔مگرمسلمانوں نے اس کے منصوبے کی پہلی کڑی کو ہی فحل کے مقام پر توڑ دیاتھا۔روم کا شہنشاہ ہرقل ہمت ہارنے والا آدمی نہیں تھا۔اس کی زندگی جنگ و جدل میں گزری تھی۔خد انے اسے ایسی عقل دی تھی جس سے اس نے بڑے خطرناک حالات کارخ اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔اسے روم کی شہنشاہی۶۱۰ء میں ملی تھی۔اس وقت روم کی سلطنت میں شمالی افریقہ کا کچھ حصہ ، یونان اور کچھ حصہ ترکی کا شامل تھا۔روم کی شہنشاہی تو اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض تھی لیکن ہرقل کو جب اس کا تخت و تاج ملااس وقت یہ شہنشاہی سکڑ چکی تھی اور زوال پزیر تھی۔ہرقل نے اپنے دورِ حکومت کے بیس سال دشمنوں کے خلاف لڑتے اور محلاتی سازشوں کو دباتے گزار دیئے تھے۔اس کی شہنشاہی کے دشمن معمولی قوتیں نہیں تھیں۔ایک طرف فارس کی شہنشاہی تھی۔دوسری طرف بربر تھے۔جو بڑے ظالم اور جنگجو تھے،ان کے علاوہ ترک تھے جن کی جنگی طاقت اور مہارت مسلمہتھی۔ہرقل کی غیر معمولی انتظامی فہم و فراست اور عسکری قیادت کی مہارت تھی کہ اس نے تینوں دشمنوں کو شکست دے کر روم کی شہنشاہی کو شام اور فلسطین تک پھیلایا اور مستحکم کیا تھا۔اتنے طاقتور دشمنوں کے خلاف متواتر معرکہ آراء رہنے سے ہرقل کی فوج تجربہ کار اور منظم ہو گئی تھی۔منظم بھی ایسی کہ پسپا ہوتے وقت بھی تنظیم کو برقرار رکھتی تھی۔ہرقل کی فوج میں صرف رومی ہی نہیں تھے ، کئی اور اقوام کے لوگ اس میں شامل تھے ۔شام اور فلسطین کے عیسائی بھی تھے، ان عیسائیوں پر اسے کلی طور پر بھروسہ نہیں تھا۔ان کے متعلق ہرقل کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ مالِ غنیمت کیلئے لڑتے ہیں اور جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے یہ بھاگ اٹھتے ہیں۔مسلمانوں کو وہ عرب کے بدو کہا کرتا تھا،اس نے مسلمانوں کو لٹیرے بھی کہا تھا لیکن اس نے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا کہ اب اس کا مقابلہ ایک ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ عسکری فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کے سامنے ایک مقصد ہے۔ہرقل مسلمانوں کے مقصد کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔یہ مذہب کا معاملہ تھا لیکن وہ جان گیا تھا کہ مسلمان زمین کی خاطر اور اپنی شہنشاہی کے قیام اور وسعت کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے بلکہ وہ ایک عقیدے پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment