’’آہ ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے افسوس کے لہجے میں کہا۔’’میں نے جب ان کی شرطیں سن کر انہیں حفاظت کا وعدہ دیا تھا، اس وقت مجھے گمان تک نہ ہو اتھا کہ تو میرے فیصلے پر اعتراض کرے گا۔میں یہ بھی نہیں جانتا تھاکہ تو لڑ رہا ہے۔میں نے اپنے اﷲاور رسولﷺ کے احکام کے مطابق اور انہی کے نام پر رومیوں کو بخش دیا ہے……سمجھ لے ابو سلیمان! میری بات سمجھ لے۔مجھے بد عہدی کا ارتکاب نہ کرنے دے۔‘‘دونوں کے درمیان بحثچلتی رہی۔خالدؓ کے محافظوں کو بھی غصہ آگیا۔وہ تلواریں سونت کر توما اور اس کے ساتھیوں پر جھپٹے۔ وہ انہیں قتل کر دینا چاہتے تھے۔انہیں کسی طرح شک ہو گیا تھا کہ یہ رومیوں کی چال ہے جو دو سالاروں کو لڑا رہی ہے۔محافظوں نے توما وغیرہ پر ہلہ بولا توابو عبیدہؓ دوڑ کر ان کے آگے ہو گئے۔’’خبردار !‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’پہلے کچھ فیصلہ ہونے دو،یہ ابھی میری پناہ میں ہیں اور تمہیں جب تک کوئی حکم نہیں ملتا تم کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کے اس حکم کو بھی برداشت کیا۔خالدؓ کیموجودگی میں ابو عبیدہؓ کوئی حکم نہیں دے سکتے تھے۔یہ صورتِ حال مسلمان-----------------------------طی تو خالدؓسے ہوئی تھی کہ کمند پھینک کر شہر میں داخل ہونے جیسا خطرناک کام کر رہے تھے،مگر ابو عبیدہؓ کو اطلاع نہ دی۔حالانکہ وہ خالدؓ کے قائم مقام سالار تھے۔خالدؓ نے تو ان سالاروں میں سے بھی کسی کو نہ بتایا جو شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے اپنے دستوں کے ساتھ موجود تھے۔اس کے بعد غلطی ابو عبیدہؓ کی تھی۔جنہوں نے وہ فیصلہ کیا جو صرف سالارِ اعلیٰ کو کرنا چاہیے تھا۔خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کے درمیان یہ جھگڑا ان کی انا کا مسئلہ بن کر کوئی ناگوار صورت اختیار کر سکتا تھا لیکن یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مسلمان آپس کے کسی جھگڑے کو ذاتی مسئلہ نہیں بنایا کرتے تھے اور ان کا حاکم اپنے آپ کو آج کل کے حاکموں کی طرح نہیں سمجھا کرتے تھے۔خالدؓنے دوسرے سالاروں کو بلایا۔اس وقت تک دوسرے دستے بھی شہر میں آچکے تھے۔سالار جب خالدؓ کے پاس آئے توخالدؓ نے اپنا اور ابو عبیدہؓ کا جھگڑا ان کے آگے رکھ دیا۔’’ابنِ ولید!‘‘ سالاروں نے آپس میں بحث و مباحثہ کرکے خالدؓ سے کہا۔’’ابو عبیدہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن وہ جو فیصلہ کر چکے ہیں ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ورنہ یہ خبر دور دور تک پھیل جائے گی کہ مسلمان دھوکے باز ہیں، صلح اور عام معافی کا وعدہ کرتے ہیں پھر لوٹ مار اور قتلِ عام کرتے ہیں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا۔’’ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ بعض شہر ہمیں مزاحمت کے بغیر مل گئے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان شہروں میں ہماری وہاں آمد سے آگے آگے یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کی شرطیں سخت نہیں ہوتیں اور اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں اور رحم دلی سے ہر کسی کے ساتھ پیش آتے ہیں……ابنِ ولید!ہمیں اس روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ورنہ پھر ہمیں کوئی شہر آسانی سے نہیں ملے گا- ’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔’’تم سب نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔‘‘رومی سالار توما اور ہربیس ذرا دورکھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ نے ان کی طرف دیکھا تو غصہ پھر تیز ہو گیا۔’’میں تم سب کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن ان دونوں رومی سالاروں کو نہیں چھوڑوں گا۔میں انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’انہی دونوں کے ساتھ تو میرا معاہدہہو اہے اور انہی کو میں نے حفاظت کی ضمانت دی ہے۔میرے فیصلے کو تو نے قبول کر ہی لیا ہے تو ان دونوں کو بھی جانے دے۔‘‘’’تیرے عہد نے انہیں میرے ہاتھ سے بچا لیا ہے۔‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’لیکن یہ دونوں اﷲکی لعنت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘ایک اور مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ توما اور ہربیس کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا جو عربی زبان سمجھتا اور بولتا تھا۔وہ مسلمان سالاروں کی باتیں سن کر توما اور ہربیس کو رومی زبان میں سناتا جا رہا تھا۔آخر انہیں عام معافی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔’’آپ سب نے ہم پر احسان کیا ہے۔‘‘تو ما نے خالدؓاور ابو عبیدہؓ کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔’’ہمیں اجازت دی جائے کہ اپنی منزل تکہم اپنی پسند کے راستے سے جا سکیں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا کہ وہ جواب دیں لیکن خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔’’تمہیں اجازت ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے توما کو جواب دیا۔’’جس راستے پر چاہو جا سکتے ہو۔لیکن یہ بھی سن لو، تم جہاں رکو گے یا جہاں قیام کرو گے اگر ہم نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تو ہم سے اپنی حفاظت کی توقع مت کرنا۔تمہارے ساتھ جو معاہدہ کیا جا رہا ہے یہ صرف اس مقام تک ہے جہاں تم جا رہے ہو، یہ دوستی کا معاہدہ نہیں۔‘‘’’اگر معاہدہ عارضی ہے تو میری ایک درخواست اور ہے۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔تین دنوں بعد ہم معاہدے کو ختم سمجھیں گے۔‘‘’’پھر ہم تمہارے ساتھ جوسلوک کرنا چاہیں گے کریں گے۔‘‘خالدؓ گرج کر بولے۔’’آپ ہمیں قتل کر سکتے ہیں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں پکڑ کر اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔‘‘ ’’یہ بھی منظور ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تین دنوں میں ہی کہیں غائب ہو جانا،وہاں تک چلے جانے کی کوشش کرنا جہاں تک میں نہ پہنچ سکوں……اب ایک شرط میری بھی سن لو……تم اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کا سامان لے جا سکو گے۔اس سے زیادہ تم کچھ نہیں لے جا سکو گے۔کوئیآدمی ہتھیار لے کر نہیں جائے گا۔‘‘’’نہیں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’تیری یہ شرائط اس معاہدے کے خلاف ہیں جو میں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔یہ اپنا مال و اسباب اورجو کچھ یہ لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔میں انہیں یہ حق دے چکا ہوں۔‘‘خالدؓنے گذشتہ رات کو اپنے آپ کو زندگی کے سب سے بڑے خطرے میں ڈالا تھا کہ دیوار پر کمند پھینک کر اوپر چلے گئے تھے۔اب ابو عبیدہؓ نے خالدؓکوایک اور بڑے ہی سخت امتحان میں ڈال دیاتھا۔خالدؓرومیوں پر اپنی کوئی نہ کوئی شرط عائد کرنا چاہتے تھے مگر ابو عبیدہؓ ان کی ہر شرط کو یہ کہہ کر رَد کر دیتے تھے کہ توما کے ساتھ وہ کچھ اور معاہدہ کر چکے ہیں۔خالدؓکو بار بار اپنےغصے کو دبانا پڑتا تھا، یہ کام بہت مشکل تھا۔’’لے جائیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جو کچھ اٹھا سکتے ہیں، لے جائیں۔لیکن ان میں کوئی بھی کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔‘‘’’ہم پر یہ ظلم نہ کریں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہم لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔راستے میں کوئی اور دشمن ہم پر حملہ کر سکتا ہے ، ہمیں نہتا دیکھ کر ڈاکوہی ہمیں لوٹ لیں گے۔اگر آپ ہمیں نہتا یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہیں رہنے دیں اور ہمارے ساتھ جیسا سلوک چاہے کریں۔ایک طرف آپ کی نیکیاں اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں۔مگر آپ کا یہ حکم ہمارے قتل کے برابر ہے کہ ہم نہتے جائیں۔‘‘خالدؓکچھ دیر توما کے منہ کی طرف دیکھتے رہے ۔ان کا چہر ہ بتا رہاتھا کہ وہ اپنے اوپر جبر کر رہے ہیں۔’’اے رومی سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو خوش قسمت ہے کہ صلح کیلئے تو میرے پاس نہیں آگیا تھا……میں تجھے ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دے دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ ہر شخص جن میں تو بھی شامل ہے ،صرف ایک ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ایک تلوار یا ایک برچھی، یا ایک کمان اور ایک ترکش یا ایک برچھی یا ایکخنجر۔‘‘اس کے بعد معاہدہ لکھا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔سالارِ اعلیٰ عساکرِ مدینہ خالد بن ولید کی طرف سے دمشق کے باشندگان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے۔مسلمان شہر دمشق میں داخل ہوں گے وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ شہر کے لوگوں کے جان و مال کا، ان کی املاک کا ان کی عزت و آبرو کا تحفظ کریں۔اس میں ان کی عبادت گاہوں اور شہر کی فصیل کا تحفظ بھی شامل ہے۔انہیں اﷲاور رسولﷺ اور تمام تر مومنین اور خلیفۃ المسلمین کی طرف سے ضمانت دیجاتی ہے۔ان کے ساتھ مسلمان رحمدلی اور ہمدردی، کا سلوک اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اہلِ دمشق جزیہ دیتے رہیں گے۔‘‘جزیہ کی رقم ایک دینار فی کس مقرر ہوئی اور کچھ مقدار اناج وغیرہ کی مقرر ہوئی جو اہلِ دمشق نے مسلمانوں کو دینی تھی۔ وہ منظر مسلمانوں کیلئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا جب رومی فوج دمشق سےروانہ ہوئی ۔جو شہری دمشق میں نہیں رہنا چاہتے تھے وہ فوج کے ساتھ جا رہے تھے۔ان کی فوج نے شہریوں کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جیسے مسلمان ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔رومی سپہ سالار توما بھی جا رہا تھا۔اس کی اس آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جس میں تیر کا ٹکڑا ابھی تک موجود تھا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی جو شہنشاہِ روم ہرقل کی بیٹی تھی۔اس وقت کی وہ بہتہی حسین اور جوان عورت تھی۔شاہی مال و اسباب بے شمار گھوڑا گاڑیوں میں جا رہا تھا ظاہر ہے ان گاڑیوں میں خزانہ بھی جا رہاتا۔دمشق کے وہ باشندے جنہوں نے دمشق میں رہنا پسند نہیں کیا تھا وہ اپنا مال و متاع گھوڑا گاڑیوں اور ریہڑوں پر لے جا رہےتھے جنہیں خچر کھینچ رہے تھے۔ان میں منڈی کا مال اور تجارتی سامان بھی جارہا تھا۔مؤرخ بلاذری اور واقدی لکھتے ہیں کہ سونے چاندی کے بعد جو بیش قیمت سامان جا رہا تھا وہ بڑے عمدہ زربفت کی تین سو سے کچھ زیادہ گانٹھیں تھیں۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہیہ ہرقل کی تھیں اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ منڈی کا مال تھا۔لوگ دودھ والے مویشی بھی ساتھ لے جا رہے تھے۔مختصر یہ کہ دمشق سے تمام مال ودولت جا رہا تھا۔خالدؓکے مجاہدین دیکھ رہے تھے۔یہ ان کا مالِ غنیمت تھاجو ان کاجائز حق تھا۔زیادہ افسوس ان دستوں کے مجاہدین کو ہو رہا تھا، جنہوں نے شہر کے اندر جاکر بڑی سخت لڑائی لڑی تھی۔اس سے بھی زیادہ افسوس ان ایک سو جانبازوں کو تھا۔ جن میں سے پچاس کمندوں سے دیوارپر گئے تھے اور باقی پچاس دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے اندر گئے تھے۔ان سب نے لڑ کر شہر لیاتھا۔خالدؓ کا اپنا یہ حال تھا کہ دمشق سے جانے والے مال و اسباب کو دیکھ دیکھ کرغصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔انہوں نے اپنے مجاہدین کودیکھا،ان کے چہروں پر افسردگی اور غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔بعض کے تاثرات توایسے تھے جیسے وہ دمشق سے جانے والوں پر ہلہ بول دیں گے اور اپنا حق وصول کر لیں گے۔مؤرخ واقدی، اور ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ خالدؓ کیلئے اپنے غصے پر قابو پانا محال ہو رہا تھاآخر انہوں نے دونوں ہاتھ آگے اور کچھ اوپر کرکے آسمان کی طرف دیکھا اور ذرا اونچی آواز میں کہا۔’’یااﷲ!یہ سامان تو تیرے مجاہدین کا تھا ،یہ انہیں دے دے۔‘‘خالدؓ کی جذباتی حالت ٹھیک نہیں تھی۔’’سالارِ محترم!‘‘خالدؓکواپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔’’آپ کو دمشق مبارکہو۔‘‘خالدؓ نے اُدھر دیکھا، وہ یونس ابن مرقس تھا۔اسے دیکھ کر خالدؓکو یاد آیا کہ اس شخص نے اس لڑکی کی خاطر دمشق فتح کروادیا تھا جس کے ساتھ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اسے یونس ابن مرقس کے ساتھ نہیں بھیج رہے تھے۔’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دمشق تجھے مبارک ہو۔یہ کارنامہ تیرا ہے۔تو نہ ہوتا تو ہم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘’’لیکن میں نے جسے حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور یہاں کی بادشاہی ختم کرادی ہے۔وہ مجھے نہیں ملی۔‘‘’’کیا اس کے ماں باپ یہیں ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔ ’’وہ چلے گئے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے جواب دیا۔’’میں لڑکی سے ملا تھا، اسے کہا کہ وہ ماں باپ کو بتائے بغیر میرے ساتھ آجائے ،میری محبت اس کی روح میں اتری ہوئی ہے۔وہ فوراً تیار ہو گئی لیکن کہنے لگیکہ مسلمان آگئے ہیں، یہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ پھر تم کیا کرو گے؟میں نے اسے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، تماب محفوظ ہو……‘‘’’اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ تم بھی مسلمان ہو؟میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔اتنا سننا تھا کہ وہ بالکل ہی بدل گئی۔کہنے لگی کہ اپنے مذہب میں واپس آجاؤ۔میں نے اسلام کی خوبیاںبیان کیں تو اس نے کہا اگر تم اپنے مذہب میں واپس نہیں آؤ گے تو میری محبت نفرت میں بدل جائے گی۔میں نے کہا کہ محبت مذہب کو نہیں دیکھا کرتی۔میں نے یہ بھی کہا کہ میں اب مسلمان ہی رہوں گا۔اس نے کہا۔میں قسم کھاتی ہوں کہ آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کروں گی۔میں دمشق سے جا رہی ہوں۔ اور وہ چلی گئی۔‘‘’’کیا تم بھی اس کی محبت کو نفرت میں نہیں بدل سکتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’نہیں محترم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’میری محبت ایسی نہیں۔یہ لڑکی مجھے نہ ملی تو شایدمیں پاگل ہو جاؤں۔میں نے آپ کو یہ شہر دیا ہے، کیا آپ مجھے ایک لڑکی نہیں دلا سکتے؟وہ میری بیوی ہے۔میں نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔آپ چاہیں تو اپنا ایک دستہ بھیج کر لڑکی کو زبردستی لا سکتے ہیں۔آپ فاتح ہیں۔‘‘’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نےکہا۔’’معاہدہ ہو چکا ہے۔ہم جانے والوں کا ایک بال بھی ان سے زبردستی نہیں لے سکتے۔‘‘مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ یونس ابن مرقس عقل اور ذہانت کے اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔خالدؓ اس سے متاثر تھے اور اس کے احسان مند بھیتھے۔دمشق کی فتح اس یونانی جوان کے بغیر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھی۔خالدؓ کو یہ شخص اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور جس لڑکی کی محبتاسے پاگل کیے ہوئے تھی اس کے کہنے پر بھی اس نے اسلام ترک نہیں کیا تھا۔’’میں نے سنا ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’کہ آ پ نے دمشق سے جانے والوں کو تین دنوں کیلئے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔کیا ان تین دنوں کے دوران آپ ان لوگوں کا تعاقب کرکے ان پر حملہ نہیں کرسکتے؟‘‘’’نہیںابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ معاہدے کے خلاف ہے۔‘‘’’تین روز گزرجانے کے بعد تو آپ ان پر حملہ کر سکتےہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’تین دنوں میں تو یہ بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ قافلہ بہت تیز جائے گا کیونکہ اس کے پاس خزانہ ہے اور بہت قیمتی مال بھی ہے۔راستے میں رومیوں کے قلعے آتے ہیں، وہ کسی بھی قلعے میں جا پناہ لیں گے۔میں کسی قلعے پر اتنی جلدی حملہ نہیں کر سکوں گا۔‘ ’’اےاسلام کے عظیم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’یہ اس راستے پر نہیں جا رہے جس راستے پر قلعے آتے ہیں۔میں ان قلعوں سے واقف ہوں……بعلبل، حمص اور طرابلس……یہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے ، میں جانتا ہوں قافلے کے ساتھ سالار توما ہے۔وہ اپنی فوج اور شہریوں کو انطاکیہ لے جارہا ہے جہاں اس کاسسر شہنشاہ ہرقل رہ رہا ہے۔میں تمام علاقےسے واقف ہوں۔انطاکیہ تک پہنچنے کیلئے تین سے بہت زیادہ دن سفر کرنا پڑتا ہے۔میں آپ کو ایسی طرف سے لے جاسکتا ہوں جو کوئی راستہ نہیں۔آپ کے گھوڑ سوار تیز ہوں تو میں چوتھے دن کی صبح تک انہیں قافلے تک پہنچا سکتاہوں۔‘‘خالدؓنے یہ سنا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔یہی تو وہ چاہتے تھے۔ان کاارادہ یہ تھا کہ مجاہدین کو مالِ غنیمت ضرور دلائیں گے۔ انہیں دمشق والوں پر غصہ تھا جو دمشق سے اپنے مال و متاع لے کر چلے گئے تھے۔’’میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔‘‘یونس ابنِ مرقس نے کہا۔’’میں آپ سے کچھ نہیں لوں گا۔مجھے صرف میری بیوی دلا دینا۔‘‘چوتھے دن کی صبح طلوع ہوئی تو توما کا قافلہ انطاکیہ سے ابھی بہت دور تھا۔توما کو شکست کا افسوس تو تھا ہی لیکن وہ خوش تھا کہ اس کی چال کامیاب رہی تھی اور وہ دمشق کے لوگوںکو قیمتی اشیاء سمیت اپنے ساتھ لے جا رہاتھا۔اس روز قافلہ ایک پہاڑی سلسلے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا اور کچھ دیر میں چلنے کو تھا، اچانک کسی طرف سے ہزاروں گھوڑ سوار آندھی کی طرح آئے اور رومیوںپر ٹوٹ پڑے۔اس سے ذرا ہی پہلے رومیوں پر ایک اور قہر ٹوٹا تھا،یہ بڑی تیز بارش تھی۔گھٹائیں پھٹ پڑی تھیں۔اس رومی قافلے کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔یہ بارش آسمانی آفت تھی اور اس آفت میں رومی فوج اور دمشق کے باشندوں پر ایک اور آفت ہزاروں گھوڑ سواروں کی شکل میں ٹوٹی۔اس وقت تک قافلے والے اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔وہ اپنے سامان کو گھسیٹتے پھر رہے تھے۔زربفت کی تین سو سے زائد گانٹھیں جو بڑے بڑے بنڈلوں کی مانند تھیں، ہر طرف بکھری پڑی تھیں، بعض گانٹھیں کھل گئیں اور کپڑا کھل کر بکھر گیا تھا۔زربفت کا کپڑااتنا زیادہ بکھرا کہ اس جگہ کا نام ’’مرج الدیباج‘‘یعنی ریشم کا خیابان پڑ گیا۔یہاں جو معرکہ لڑا گیا اسے تمام مؤرخوں نے معرکہ مرج الدیباج لکھا ہے۔یہ گھوڑ سوار جنہوں نے رومیوں اور دمشق والوں کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ان کی تعداد ایک ہزار تھی،اور یہ خالدؓ کے بھیجے ہوئے سوار تھے۔اس حملے کی تفصیلات یوں ہیں کہیونس ابنِ مرقس نے جب خالدؓکو بتایا کہ وہانہیں ایک چھوٹے راستے سے رومیوں تک پہنچا سکتا ہے تو خالدؓ کو روشنی نظر آئی۔یونس ابنِ مرقس خالدؓ کو اس لئے تعاقباور حملے کیلئے اُکسا رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لانا چاہتا تھالیکن خالدؓ کچھ اور سوچ رہے تھے۔انہوں نے اپنی فوج کی مایوسی دیکھی تھی۔دشمن مالِ غنیمت اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔ خالدؓ پر پابندی یہ عائد ہو گئی تھی کہ رومیوں کو تین دنوں کی مہلت دی گئی تھی۔اس دوران مسلمان ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔تین دنوں میں رومیوں کو کسی نہ کسی پناہ میں پہنچ جانا تھا لیکن یونس ابنِ مرقس کہتا تھا کہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے اور یونس اسے راستے میں پکڑوا سکتا ہے۔خالدؓکو غصہ اور تاسف پریشان کر رہا تھا۔دشمن مع مالِ غنیمت کے ابو عبیدہؓ کی غلطی یا غلط فہمی سے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔یونس کی یقین دہانی پر خالدؓ نے حملے کا پلان تیارکر لیا۔اس پلان کے مطابق خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے گھوم پھر کرلڑنے کیلئے تیار کیا تھا، اسے طلیعہ کہتے ہیں،یہ چار ہزار منتخب سواروں کا دستہ تھا۔یہ سب شہسوار او رجانباز تھے۔اس دستے کا گائیڈ یونس ابنِ مرقس تھا۔وہ خوش تھا کہ خالدؓ اسے اس کی بیوی دلانے کیلئے اتنا بڑا جنگی اہتمام کر رہے ہیں لیکن خالدؓ کے سامنے کچھ اور مسئلہ تھا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔خالدؓ نے اس دستے کو چار حصوں میں تقسیم کیا، اور روانہ ہو گئے۔ان کی رفتار بہت تیز تھی۔خالدؓنے ہر حصے کے سالار کو اور سواروں کو بھی بتا دیا تھا کہ جس قافلے پر حملہ کرنے جا رہے ہیں اسے صرف قافلہ نہ سمجھیں۔ وہ سب مسلح ہیں ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں، اور وہ رومی ہیں جو جان کی بازی لگا کر لڑنا جانتے ہیں اور وہ پسپاہوتے ہیں تو منظم طریقے سے پیچھے ہٹتے ہیں، بھاگتے نہیں۔چوتھے دن رومی فوج اور دمشق کے باشندوں کا یہ قافلہ انطاکیہ سے ابھی کچھ دور تھا کہ موسلا دھار بارش نے اسے بکھیر دیا،جوں ہی بارش ختم ہوئی ، ایک ہزار گھوڑ سواروں نے ان پر حملہ کر دیا۔رومی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سواروں کے آگے آگے ضرار بن الازور تھے جنہوں نے حسبِ معمول سر پر خود بھی نہیں رکھی تھی اور قمیض بھی اتاری ہوئی تھی اور وہ کمر تک برہنہ تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار توما اور ہربیس پہلے تو اس پر حیران ہوئے کہ مسلمان کدھر سے آنکلے ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں دمشق کا ہی ایک گائیڈ مل گیاتھا جو انہیں ایک چھوٹے راستے سے لے گیا تھا۔’’ہربیس!‘‘توما نے کہا۔’’سب کو مقابلے کیلئے تیار کرو۔ مسلمانوں نے ہمیں تین دن کی ضمانت دی تھی، یہ تین دن ختم ہو گئےہیں۔‘‘’’جم کرمقابلہ کرو۔‘‘ہربیس نے للکار کر کہا۔’’یہ بہت تھوڑے ہیں کاٹ دو انہیں۔‘‘ رومی فوج حملہ روکنے کی ترتیب میں ہو گئی۔دمشق کے جو شہری لڑ سکتے تھےوہ بھی مسلمانوں کے مقابلے میں آگئے۔رومی سپاہی اور اہلِ دمشق بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور ان کا سامان بکھرا ہوا تھا، انہوں نے اپنی عورتوں کو بچوں کو پیچھے کر دیا اور ان کے ڈیڑھ دو سو آدمی تلواریں اور برچھیاں لے کر عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوگئے۔رومی للکار کر اور نعرے لگالگا کر لڑ رہے تھے۔ضرار جو برہنہ جنگجو کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔اپنی روایت کے مطابق لڑ رہے تھے۔بلکہ جو سامنے آیا اسے کاٹتے جا رہے تھے،لیکن رومی جس بے جگری سے لڑ رہے تھے اس سے یہی نظر آرہا تھا کہ وہ مسلمان سواروں کا صفایا کردیں گے۔تقریباً نصف گھنٹہ گزرا ہو گا کہ ایک طرف سے خالدؓ کے دستے کے ایک ہزار مزید سوار گھوڑے سرپٹ دوڑاتے آرہے تھے۔ان کے سالار رافع تھے۔رومی سالار نے دیکھا تو انہوں نے اپنی ترتیب بدل ڈالی، اور چلا چلا کر کہنے لگے، کہ وہ ان سواروں کو بھی ختم کردیں گے۔ان کے لڑنے کا انداز ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے دعوے کو صحیح ثابت کر سکتے تھے، معرکہ اور زیادہ خونریز ہو گیا۔نصف گھنٹہ اور گزرا ہو گا کہ مزید ایک ہزار سوار شمال کی جانب سے آئے۔ان کے سالار خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹےعبدالرحمٰن تھے۔اب رومیوں کے حوصلے مجروح ہونے لگے۔یہ ایک ہزار سوار جدھر سے آئے تھے یہ رومیوں کی پسپائی کا راستہ تھا۔اُدھر انطاکیہ تھا۔مسلمانوں نےیہ راستہ روک لیا تھا۔اب تین ہزار مسلمان سوار رومیوں پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے لیکن رومی اور اہلِ دمشق پہلے سے زیادہ شدت سے لڑنے لگے۔یہ معرکہ ان کیلئے زندگی اور موت کامعرکہ بن گیا تھا۔ ان کا بڑا ہی قیمتی مال و متاع، ان کے بچے اور بڑی خوبصوت اور جوان بیٹیاں بہنیں اور بیویاں ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بھاگ نہیںسکتے تھے ۔ان کے لڑنے میں شدت پیدا ہو گئی۔تقریباً ایک گھنٹے تک رومیوں نے مسلمانوں کا ناک میں دم کیے رکھا۔ ان کا سالار توما جس کی آنکھ میں تیر اترا ہوا تھا، سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔اچانک ایک ہزار مزید گھوڑ سوار ایک اور سمت سے آئے ۔ان کا سالار تلوار بلند کیے نعرے لگا رہا تھا:اَنا فارس الضدیداَنا خالد بن ولیدرومیاس نعرے سے بخبوبی واقف تھے۔ ان ایک ہزار سواروں کے قائد خالدؓ خود تھے۔یہ تھا خالدؓکا پلان۔ وہ ایک ایک ہزار سوار بھیجتے رہے اور آخر میں خود ایک ہزار سواروں کے ساتھ آئے۔خالدؓ توما اور ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے۔’’کہاں ہے ایک آنکھ والا رومی؟‘‘خالدؓ للکار رہے تھے۔’’کہاں ہے وہ جس کی ایک آنکھ میں مومن کا تیر اترا ہوا ہے۔ رومی سالاروں کی تلاش میں خالدؓ دشمن کے دور اندر چلے گئے۔وہ اکیلے تھے۔ان کے محافظوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔’’ابنِ ابی بکر!‘‘خالدؓ کا ایک محافظ سالار عبدالرحمٰن کو دیکھ کر ان تک پہنچا اور لڑائی کے شوروغل میں چلا کر بولا۔’’سالارِ اعلیٰ کا کچھ پتا نہیں۔اکیلے آگے چلے گئے ہیں۔‘‘’’نہیں، نہیں!‘‘عبدالرحمٰن نے گھبرا کر کہا۔’’ابنِ ولیدلا پتا نہیں ہو سکتا۔اﷲکی تلوار گرنہیں سکتی۔‘‘عبدالرحمٰن نے کچھ سواروں کو ساتھ لیا، بے طرح اور بے خطر اس طرف گئے جدھر خالدؓ چلے گئے تھے۔لڑائی ایسی تھی جیسے سوار گتھم گتھا ہو گئے ہوں۔عبدالرحمٰن ان میں راستہ بناتے خالدؓکو ڈھونڈنے لگے۔دیکھا کہ خالدؓدشمن کے قلب میں پہنچے ہوئے تھے اور وہ توما کو اور دوسرے رومی سالار ہربیس کو ہلاک کر چکے تھے،اور اب رومیوں کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ رومی زیادہ تھے۔یہ خالدؓ تھے جو ابھی تک ہر وار بچا رہے تھے۔رومیوں کے ہاتھوں ان کی شہادت یقینی تھی۔عبدالرحمٰن اپنے سواروں کے ساتھ پہنچ گئے اور رومیوں پر ایسا زور دار حملہ کیا کہ ان میں سے کئی ایک کو ہلاک کر دیا اور خالدؓ کو وہاں سے زندہ نکال لائے۔اس معرکے کی صورت ایسی بن گئی تھی کہ کوئی ترتیب نہیں رہی تھی۔یہ کھلی لڑائی تھی جو لڑنے والےاپنے اپنے انداز سے انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔مسلمان سواروں کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد کم تھی اس لیے وہ رومیوں اور اہلِ دمشق کی اتنی زیادہ نفری کو گھیرے میں نہیں لے سکتے تھے۔اس سے یہ ہوا کہ رومی اپنے سالاروں کی ہلاکت کے بعد ایک ایک دو دو معرکے میں سے نکلنے لگے۔وہ علاقہ پہاڑی تھا اور کھڈ نالے بھی تھے۔رومی وہیں کہیں غائب ہوتے گئے، اور انطاکیہ کی طرف نکل گئے۔اس طرح معرکہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔خالدؓ کے حکم سے عورتوں کو گھیرے میں لے لیا گیا، کچھ عورتیں بھاگ گئی تھیں۔عورتوں کے ساتھ کئی آدمیوں کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔اس قافلے کے ساتھ جو مال اموال، خزانہ اوردیگر قیمتی سامان جا رہا تھا، وہ سب وہیں رہ گیا۔یہ مجاہدین کا مالِ غنیمت تھا۔وہاں ایک حادثہ یوں ہوا کہ یونس ابن مرقس اپنی بیوی کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ وہ اسے نظر آگئی۔وہ اس کی طرف دوڑا۔لڑکی بھاگ نکلی لیکن وہ کہیں جانہیں سکتی تھی کیونکہ سب عورتیں مسلمان سواروں کے گھیرے میں تھیں۔لڑکی نے جب دیکھا کہ کوئی راہِ فرار نہیں اور یونس جومسلمان ہو چکا تھا، اسے پکڑ لے گا۔تو اس نے اپنے کپڑوںکے اندر ہاتھ ڈالا اور خنجر نکال لیا۔یونس کے پہنچنے تک لڑکی نے خنجر اپنے سینے میںگھونپ لیا، وہ گری اور یونس اسے اٹھانے لگا۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment