ان میں کوئی سالار ایسا ہے جو نرم مزاج ہو ؟‘‘اس نے پوچھا۔’’ابو عبیدہ!‘‘یہو دی نے جواب دیا۔’’بڑا ہی قابل بڑا ہی دلیر سالار ہے۔مگر رحم دل ہے۔‘‘’’اپنی فوج میں اس کی حیثیت کیا ہے؟‘‘’’ابنِ ولید کے بعد حیثیت ابو عبیدہ کی ہے۔‘‘دوسرے یہودی نے کہا۔’’ان کی خلافت میں جو قدرومنزلت ابو عبیدہ کی ہے وہ ابنِ ولید کی نہیں۔ابنِ ولید کا درجہ اس کےبعد کا ہے۔تمام مسلمان خود خلیفہ اور ابنِ ولید ابو عبیدہ کا احترام کرتے ہیں۔‘‘یہاں سے توما کے دماغ میں ایک فریب کاری آگئی۔یہودی اور عیسائی عرب مشیروں اور دانشوروں نے اس کی رہنمائی اور مدد کی،اور ایک منصوبہ تیارہو گیا۔جو مختصراً اس طرح تھا کہ توما ابو عبیدہ کے آگے اس شرط پر ہتھیار ڈالے گا کہ اسے اس کی فوج اور شہر کے ہر اس باشندے کو جو شہر چھوڑ کر جانا چاہے اسے اس کے مال و اسباب وعورتوں اور بچوں سمیت نکل جانے دیا جائے۔شہر میں لوٹ مارنہ ہو۔تومانے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جزیہ اداکرے گا یہ بھی طے پایا کہ خالدؓ کو قبل از وقت پتا نہ چلے۔یہ منصوبہ اس بنیاد پر بنایا گیا تھا کہ ابو عبیدہ شہر کے اس دروازے (باب جابیہ)کے سامنے اپنے دستوں کے ساتھ تھے۔جو اس دروازے (باب الشرق)کے بالمقابل تھا۔دونوں دروازوں کے درمیان پورا شہر حائل تھا اور فاصلہ ایک میل سے کچھ زیادہ تھا توما آسانی سے اپنے ایلچی ابو عبیدہ کے پاس بھیج سکتا تھا۔توما نے یہ کانفرنس اس رات سے دو تین راتیں پہلے منعقد کی تھی جس رات یونس ابن مرقس خالدؓ کے پاس آیاتھا۔اگلیرات کا واقعہ ہے ،خالدؓ ،قعقاعؓ اور ایک بڑے بہادر مجاہد مذعور بن عدی شہرِ پناہ کے دروازے بابِ الشرق سے کچھ دور کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں رسے تھے، دیوارکے ساتھ لگے ایک سو مجاہدین کھڑے تھے۔ یہ سارے لشکر میں سے چنے ہوئے نڈر اور ذہین مجاہدین تھے۔ یونس ابن مرقس خالدؓ کے ساتھ تھا۔اسی نے خالدؓکو یہ جگہ بتائی تھی وہ رسے کے ذریعے یہیں سے اترا تھا۔ خالدؓ اپنی زندگی کا بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے، وہ سپہ سالار تھے انہیں اوپر نہیں جانا چاہیے تھا۔ پکڑے جانے کا امکان تھا۔مارے جانے کا خطرہ تھا، لیکن اس خطرے میں وہ کسی اور کو نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ انہیں اعتماد تھا کہ ان کے ناہونے سے مجاہدین میں بد دلی نہیں پھیلے گیاور ابو عبیدہؓ ان کی جگہ لے لیں گے،یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھاکہ خالدؓکیغیر حاضری میں سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ ہوں گے۔خالدؓ نے اپنے ہاتھ سے کمند اوپر پھینکی دیوار کی بلندی تیرہ چودہ گز تھی۔کمند دیوار کے اوپراٹک گئی۔انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا، دیوار پر کوئی حرکت نہ ہوئی،جس کا مطلب یہ تھا کہ اوپر کوئی نہیں تھا۔اگر کوئی تھا بھیتو اسے پتا نہیں چلا تھا کہ دیوار پر کمند پھینکی گئی ہے۔ خالدؓنے اپنے آپکو مزید خطرے میں یوں ڈالا کہ سب سے پہلے خود کمند کے ذریعے اوپر گئے۔ ان کےپیچھے قعقاعؓ اور مذعور اوپر گئے۔اوپرکوئی بھی نہیں تھا، دیوار کایہ حصہ شہر سے کچھ دور تھا۔شہر کی آوازوں سے پتا چلتا تھا کہ لوگ جاگ رہے ہیں، اور کسی تقریب میں مصروف ہیں۔ خالدؓکو یقین آگیا کہ یونس ابن مرقس انہیں دھوکا نہیں دے رہا۔انہوں نے دیوار یعنی شہر کی فصیل کے ساتھ دو تین رسے باندھ کر نیچے لٹکا دیئے۔ جو وہ اسی مقصدکیلئے ساتھ لے گئے تھے۔ان کے ایک سو مجاہدین میں سے پچاس ان رسوں سے اوپر چلے گئے۔ یونس ابن مرقس بھی ان کے ساتھ گیا۔وہ خالدؓکا گائیڈ تھا۔ خالدؓنے ان جانبازوں میں سے کچھ کو اس کام کیلئے دیوار پر بٹھا دیا کہ رومی فوج کے آدمی اگر اوپر آجائیں تو انہیں ختم کر دیں،لیکن خاموشی سے تاکہ شہر میں کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔ ہر کام خاموشی سے کرنا تھا۔خالدؓ نے قعقاعؓ اور مذعور کو اپنے ساتھ رکھا اور پچاس جانبازوں میں سے باقی کو اپنے ساتھ فصیل سے اتار کر لے گئے۔ جوں ہی وہ دیوار سے اترے انہیں کسی کی باتیں سنائی دیں۔’’رومی سپاہی۔‘‘یونس ابن مرقس نے خالدؓ کے کان میں سرگوشی کی۔’’میں ان کی زبان سمجھتا ہوں، انہیں ان کی زبان میں رعب سے کہو کہ جلدی چلو۔‘‘خالدؓ نے یونس ابنمرقس سے کہا اور اپنے جانبازوں سے کہا ۔’’تلواریں نکال لو اور اتنی تیزی سے وار کرنے ہیں کہ رومیوں کو منہ سے کوئی آواز نکالنے کی مہلت نہ ملے۔‘‘یونس ابن مرقس نے فوجی افسروں کی طرح بڑے رعب سے رومی سپاہیوں کو بلایا۔ ان کے آنے تک خالدؓ کے جانباز گھیرے کی ترتیب میں ہو گئے۔ رومی سپاہی کم و بیش چالیس تھے۔ وہ دوڑے آئے، رات کا وقت تھا، چاند آدھی رات کے لگ بھگ افق سے اٹھتا تھا۔جب رومی سپاہی آرہے تھے اس وقتچاند شہر کی فصیل سے اوپر آگیاتھا۔رومیسپاہی خالدؓ کے جانبازوں کو اپنے آدمی سمجھے ہوں گے وہ قریب آئے تو مسلمان جانباز سواروں سے ان پر ٹوٹ پڑے، ان میں سے سات آٹھ نے تلواریں نکالیں اور مقابلے کی کوشش کی لیکن مارے گئے،مگر خاموشی ٹوٹ گئی۔ دو تین رومی سپاہیوں نے زخمی ہوتے ہی بڑی اونچی آوازوں میں شور بپا کیا کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو گئے ہیں۔’’اب دروازہ فوراً کھلنا چاہیے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’رومی فوج کو آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔میرے پیچھے آؤ۔‘‘ جہاں دروازہ تھا وہاں ڈیوڑھی تھی۔خالدؓ اپنے جانبازوں سے آگے تھے ،وہدوڑتے ہوئے دروازے والی ڈیوڑھی میں گئے وہاں صرف دو رومی سپاہی تھے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں وہ شور سن چکے تھے۔ اس لئے مقابلے کیلئے تیار تھے۔لیکن خالدؓ نے انہیں مقابلے کی زیادہمہلت نہ دی۔ ایک کو خالدؓنے اور دوسرے کو قعقاعؓ نے مار ڈالا۔ دروازہ کھولا خالدؓنے حکم دیااور زیادہ آدمی باہر تیار رہو۔رومی آرہے ہیں۔‘‘دروازے کے اند رکی طرف بڑے وزنیتالے لگے ہوئے تھے اوربڑی زنجیریں باندھ کر دروازے کو مستحکم کیا ہوا تھا۔بڑی مشکل سے تالے توڑے گئے اور زنجیریں بھی اتار لی گئیں۔خالدؓدروازہ کھول کر باہر نکلے ان کے باقی پچاس جانباز باہر کھڑے تھے۔ خالدؓنے انہیں اندر بلایا اور کہا کہ وہ دروازے کے باہر پھیل کر مقابلے کیلئے تیار رہیں۔رومی فوج آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس دروازے کے سامنے جو دستے تھے انہیں خالدؓ تیاری کا حکم دے آئے تھے ،اور یہ حکم بھی کہ دروازہ کھلتے ہی طوفان کی طرحدروازے میں داخل ہوجائیں۔دروازہ کھلتے ہی یہ دستے طوفان کی طرح دروازے میں داخل ہونے لگے۔ چاند اب اور اوپر آگیا تھا۔ اپنے پرائے کی پہچان میں سہولت پیدا ہو گئی تھی۔ادھر سے رومی فوج کا ایک دستہ باب الشرق کی طرف آرہا تھا۔یہ مسلمانوں کی طوفانی لپیٹ میں آگیا۔ذرا سی دیر میں یہ دستہ لاشوں میں تبدیل ہو گیا۔ دمشق کی تمام تر رومی فوج فصیل کیطرف دوڑی،اور جن دستوں کو جن دروازوں کی ذمہ داری دی گئی تھی، وہ تقسیم ہو کر ان دروازوں کے سامنے چلے گئے۔سارے شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ شہری پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے وہ بھاگ نہیں سکتے تھے۔دروازے بند تھے وہ اپنی قیمتی چیزیں اِدھر اُدھر چھپا رہے تھے۔ عورتوں کا یہ عالم تھا کہ چیختی چلاتی تھیں۔’’ہمارے آدمی بے غیرت ہیں۔‘‘عورتوں کی چیخ نما آوازیں سنائی دینے لگیں۔’’ہمارےآدمی ہمیں مسلمانوں سے نہیں بچا سکتے ۔ہمارے آدمی بزدل ہیں اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں۔‘‘عورتوں کی اس طعنہ زنی نے دمشق کے جوانوں کو گرما دیا وہ تلواریں اور برچھیاں لے کر نکل آئے،اس طرح رومی فوج کو سہارا مل گیا لیکن خالدؓ کے دستے رومیوں پر حاوی ہو چکے تھے۔ مسلمان محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ وہ دمشق کو فتح کرنے کیلئے قہراور غضب سے لڑرہے تھے۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے ایسا دانستہ طور پر کیا تھا یا ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ انہوں نے دوسرے دروازوںپر جو سالار متعین کیے تھے انہیں نہ بتایا،کہ آج رات وہ کیا کرنے والے ہیں۔خالدؓ نے ابو عبیدہؓ تک کو اطلاع نہ دی کہ وہ بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔کسی بھی تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ خالدؓ نے ایسی غلطی کیوں کی تھی؟ابو عبیدہؓ وہاں سے بہت دور تھے۔ انہوں نے شہر میں شور سنا تو کہنے لگے کہ رومیوں نے کسی دروازے سےباہر جاکر اس دروازے والے مسلمان دستوں پر حملہ کیا ہے۔رومی ایسے حملے پہلے بھی کر چکے تھے ،دوسرے دروازوں والے مسلمان سالار بھی غلط فہمی میں رہے۔ خالدؓ شہر کے اندر اتنے الجھ گئے تھے کہ دوسرے سالاروں کو اندر نہ بلاسکے انہوں نےشاید یہ بھی سوچا ہو گا کہ دوسرے سالار دروازوں کے باہر اپنے دستوں کو تیار رکھیں تاکہ رومی فوج کسی دروازے سے بھاگ نہ سکے۔’’یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ مسلمان دستے شہر کی فصیل اور دروازوں سے قریب نہیں تھے وہ فصیلسے کم از کم ایک ایک میل دور تھے۔ قریب ہو کر وہ تیروں کی زَد میں آتے تھے، اتنی دور سے وہ شہر کے اندر کا شور اچھی طرح سن نہیں سکتے تھے۔ توما کو جب اطلاع ملی، کہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے ہیں تو اس نے اپنے مشیروں کو بلایا۔’’کون کون سے دروازے سے مسلمان اندر آئے ہیں؟‘‘توما نے پوچھا۔’’صرف ایک دروازے سے۔‘‘ اسے کسی نے جواب دیا۔’’شرقی دروازے سے۔باقی سب دروازے بند ہیں۔‘‘’’کیا کسی نےفصیل پر جا کردیکھا ہے؟‘‘توما نے پوچھا۔’’کیا مسلمانوں کی باقی فوج بھی قریب آگئی ہے؟‘‘’’دیکھاہے۔¬‘‘اسے جواب ملا۔’’ان کے باقی دستے جہاں پہلے تھے وہیں ہیں۔‘‘’’بابِ جابیہ کو دیکھا ہے؟‘‘تومانے پوچھا۔’’کیا ابو عبیدہ کے دستے بھی آگے نہیں آئے؟‘‘’’نہیں!‘‘اسے بتایا گیا۔’’وہ دستے بھی آگے نہیں آئے۔یہ صرف ان کے سپہ سالار خالد ابنِ ولید کے دستے ہیں۔‘‘توما کے مشیر اور سالار آگئے۔’’ہم شہر کو نہیں بچا سکیں گے۔‘‘توما نے انسے کہا۔’’مجھے ابھی تک کسی نے نہیں بتایا کہ مسلمانوں نے دروازہ کس طرح کھول لیا ہے؟انہیں اندر سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔‘‘’’کیا فائدہ یہ سوچنے کا کہ مسلمان شہر میں کس طرح داخل ہو گئے ہیں۔‘‘ایک مشیر نے کہا۔’’وہ اندر آگئے ہیں۔اب یہ سوچنا ہے کہ کیا کیا جائے؟‘‘’’اسی منصوبے پر عمل کیا جائے جو ہم نے پہلے سوچا تھا۔‘‘ایک اور مشیر نے کہا۔’’ابو عبیدہ کو صلح کا پیغام بھیجیں۔‘‘اس مسئلے پر کچھ تبادلہ خیالاتہوتا رہا۔ آخر طے پایا کہ ابو عبیدہؓ کی طرف ایک ایلچی بھیجاجائے۔’’ اور میں نے جو دستےمحفوظ رکھے ہوئے ہیں۔انہیں ادھر بھیج دیا جائے۔جدھر مسلمان اندر آگئے ہیں۔‘‘توما نے حکم دیا۔’’انہیں میرا پیغام دیاجائے کہ دمشق شہر کی نہیں بلکہ سلطنت روم کی آبرو اور آن ان کے ہاتھ میں ہے۔وہ جانیں قربان کر دیں اور مسلمانوں کے سالار ابنِ ولید کو زندہ یا مردہ میرے پاس لے کر آئیں۔‘‘ہنریسمتھ ، ابو سعید ، واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ توما ذہنی طور پر ہتھیار ڈال چکا تھا وہ اپنے محفوظہ کے دستوں کو اس لئے شہر کی لڑائی میں جھونک رہا تھا کہ خالدؓ کو اپنے فریب کارانہ منصوبے کی کامیابی تک روکا جا سکے۔اس کے یہودی اور عیسائی مشیر معمولی دماغوں کے آدمی نہیں تھے۔ رات گزرتی جا رہی تھی، اور شہر کے اندر کی لڑائی بڑھتی جارہی تھی۔اب گلیوں میں لڑائی ہو رہی تھی۔پلہ خالدؓ کے دستوں کا بھاری تھا، رومیوں کے محفوظہ کے دستوں نے خالدؓ کیلئے مشکل پیدا کر دی۔ لیکن خالدؓ ہمت ہارنے والے نہیں تھے۔ان کے آگے بڑھنے کی رفتار کم ہو گئی تھی۔ادھر ابو عبیدہؓ فجر کی نماز پڑھ چکے تو انہیں بتایا گیا کہ رومی سپہ سالارکے دو ایلچی آئے ہیں۔ ابو عبیدہؓ نے انہیں بلالیا۔’’کیا تمہارے سالار کے ابھی ہوش ٹھکانے نہیں آئے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے ایلچیوں سے کہا۔’’کہو تم کیوں آئے ہو؟‘‘’’سپہ سالارتوما کا پیغام لائے ہیں۔‘‘ایک ایلچی نے کہا۔’’جب تک ہتھیار نہیں ڈالو گے میں صلح کیلئے تیار نہیں ہو سکتا۔‘‘ابو عبیدہؓنے کہا۔ ’’اے عرب کے رحم دل سالار!‘‘دوسرے ایلچی نے کہا۔’’ہم لڑائی اور خونریزی ختم کرنے آئے ہیں۔سپہ سالار توما نے ہمیں پیغامدیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر ر ضا مند ہے۔ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں شہر سے نکل جانے دیا جائے۔شہر میں لوٹ مار نہ ہو، کسی کو قتل نہ کیا جائے ،ہر شہری اور فوجی اپنے ساتھ اپنا جو مال و اموال لے جا سکتا ہے لے جانے کی اجازت دی جائے۔‘‘’’ہم ناحق خون بہانے نہیں آئے اے رومیو!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم! میں اپنے ان ساتھیوں کا خون تمہیں معاف نہیں کر سکتاجو تم نے بہایا ہے۔‘‘’’شہنشاہِ ہرقل کے داماد سپہ سالار توما نے کہا ہے کہ ہم تاوان ادا کریں گے ۔‘‘ایک ایلچی نے کہا۔’’آپ اسے شاید جزیہ کہتے ہیں یا جو کچھ بھی کہتے ہیں۔‘‘’’ہمارا شہنشاہ اﷲہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’تم نے ہرقل کواس طرح شہنشاہ کہا ہے جیسے وہ ہمارا بھی شہنشاہ ہو، اور وہ ہمیں خیرات دے رہا ہو۔‘‘ ’’ہرقل ہتھیار ڈال دے گا، تو بھی ہم اسے شہنشاہ ہی کہیں گے۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’ہم اس کے نوکر ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔کیا آپ ہم پر اور دمشق کی عورتوں اور بچوں پر رحم نہیں کریں گے؟‘‘’’اے سالارِ مدینہ!‘‘دوسرے ایلچی نے کہا۔’’دمشق کے شہری تو لڑا ئی نہیں چاہتے تھے ،وہ تو بہت پہلے سے سپہ سالار توما کو کہہ رہے تھے کہ مدینہ والوں کے ساتھ صلح کر لو، اگر اسلام کے متعلق ہم نے جوسنا ہے وہ درست ہے تو آپ کو زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔‘‘ ’’خدا کی قسم!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’تم میرے سپہ سالار خالد بن ولید کے پاس جاتے تووہ بھی وہی کہتا جو میں کہوں گا۔ہمارے آگے جو جھک جاتا ہے اور ہم سے جو صلح کی بھیک مانگتا ہے، اسے ہم بخش دیتے ہیں کہ اسلام کا حکم یہی ہے۔اگر کوئی آخر دم تک لڑے اور ہم بزورِ شمشیر اس سے ہتھیار ڈلوائیں تو پھر ہم اسے رحم کے قابل نہیں سمجھتے۔‘‘اس وقت خالدؓ شہر کے مشرقی حصے میں لڑ رہے تھے اور وہ رومی فوجیوں کا اور ان شہری جوانوں کا جو اپنی فوج کے دوش بدوش لڑ رہے تھے صفایا کرتے جا رہے تھے۔رومیوں کی فوج دوسرے دروازوں کے آگے بھی چلی گئی تھی اس طرح یہ فوج تقسیم ہو کر کمزور ہو گئی تھی۔اس سے خالدؓنے بہت فائدہ اٹھایا۔ادھر بابِ جابیہ کھل گیا اور ابو عبیدہؓ اپنے دستوں کے ساتھ توما کے ایلچیوں کی رہنمائی میں شہر میں داخلہوئے۔ توما نے تین اور دروازے کھول کر اعلان کرادیا کہ صلح ہو گئی ہے اور رومی دمشق سے جا رہے ہیں۔معاہدہ ہو گیا ہے کہ لوٹ مار نہیں ہو گی، مسلمان کسی شہری کو قتل نہیں کریں گے اور کسی عورت کو مسلمان اپنے قبضے میں نہیں لیں گے۔غروبِ آفتاب میں کچھ وقت ابھی باقی تھا،جب ابو عبیدہؓ شہر میں داخل ہوئے تھے، خود توما نے آگے بڑھ کر ابو عبیدہؓ کا استقبال کیا۔ توما کے ساتھ اس کا ایک سالار ہربیس بھی تھا،دمشق کا بڑا پادری بھی تھا۔ ’’اے رومیو!‘‘ابو عبیدہؓ نے توما اور ہربیس سے کہا۔’’تم خوش قسمت ہو کہ تمنے خود ہی شہر ہمارے حوالے کر دیا ہے اس سے تم نےاپنے آپ کو اپنی فوج اور اپنے شہریوں کو بہت بڑی ذلت سے بچالیا ہے اور تم نے اپنے مال و اموال کو بھی بچا لیا ہے،اور یہ شور کیسا ہے؟کیا کہیں لڑائیہو رہی ہے؟‘‘’’لوگ صلح کی خوشی میں شوروغل مچا رہے ہیں۔‘‘توما نے جھوٹ بولا۔’’وہ دیکھیں ۔میری فوج دیوار کے ساتھکھڑی ہے۔ سب کے ہتھیار زمین پر پڑے ہیں۔‘‘اس وقت خالدؓ شہر کے اس حصے پر غالب آچکے تھے جس میں رومی فوج کے دو تین دستوں نے ان کا مقابل کیا تھا ، اب خالدؓ بچ بچ کر آگے بڑھ رہے تھے، وہ حیران تھے کہ شہر کی باقی فوج ان کے مقابلے کیلئے کیوں نہیں آرہی۔اسے خالدؓ پھندہ سمجھ رہے تھے۔اسی خطرے کے پیشِ نظر وہ محتاط ہو کر آگے بڑھ رہے تھے۔ باہر سے ان کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔انہیں ایسی توقع نہیں تھی کہ دروازے کھل جائیں گے اور ان کی باقی فوج بھی اندر آجائے گی۔خالدؓ اپنے آپ کو بڑی ہی خطرناک صورتِ حال میں پھنسا ہوا محسوس کر رہے تھے۔دمشق کے وسطی حصے میں شہر کا بڑا گرجا تھا۔جو کلیسائے مریم کہلاتا تھا۔ابو عبیدہؓ کو وہاں لے جایا جا رہا تھا، وہ گرجے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ خالدؓ اپنے محافظوں کے ساتھ ادھر آنکلے ۔انہوں نے ابو عبیدہؓ کو ایسے پر امن انداز سے توما وغیرہ کے ساتھ دیکھا کہ ان کی تلواریں نیاموں میں تھیں تو خالدؓ بن ولید پریشان ہو گئے۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ اوران کے محافظوں کو دیکھا، خالدؓ کے ہاتھ میں تلوار اور ڈھال تھی۔تلوار خون سے لالتھی ، دستے تک خون گیا ہوا تھا۔خالدؓ پسینے میں نہائے ہوئے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون کے بے شمار چھینٹے اور دھبے تھے۔ان کا سانس پھولا ہو اتھا۔خالدؓ کے محافظوں کی بھی حالت ویسی ہی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ خالدؓ لڑتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔محافظوں کے پاس برچھیاں تھیں جن کی انیاں جیسے خون میں سے نکالی گئی تھیں۔خالدؓ اور ابو عبیدہؓ ایک دوسرے کو حیرت زدگی کے عالم میں دیکھتے رہے۔ ’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے آخر سکوت توڑا اور خالدؓسے کہا۔’’کیا تو اﷲکا شکر ادا نہیں کرے گا کہ اس کیذاتِ باری نے یہ شہر ہمیں عطا کر دیا ہے۔اﷲنے صلح منظور کرنے کی سعادت مجھے عطا فرمائی ہے۔ ان لوگوں نے بغیر لڑے میرے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔پھر تو کیوں خون ٹپکاتی تلوار اپنے ہاتھ میں لیے پھرتا ہے؟ میں نے انہیں شہر سے اپنے مال و اموال لے جانے کی اجازت دے دی ہے۔‘‘’’ابو عبیدہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کون سی صلح کی بات کرتے ہو؟کیا تو دیکھ نہیںرہا کہ میں نے لڑ کر یہ شہر حاصل کیا ہے؟خدا کی قسم!رومیوں نے مجھے امن اور صلح کا پیغام دے کر اندر نہیں بلایا۔میرے لیے انہوں نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔ میںخود شہر میں داخل ہوا ہوں، میں نے خون بہایا ہے اور میرے آدمیوں کا خون بہایا گیا ہے۔میں رومیوں کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ یہ خیر و عافیت سے شہر سے نکل جائیں۔ ان کے شہرکے خزانے اور جو کچھ بھی شہر میں ہے وہ ہمارا مالِ غنیمت ہے اور میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ صلح کس نے کی ہے اور کیوں کی ہے؟‘‘ ’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں اور میرے دستے پر امن طریقے سے شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ دیکھ، شہر کے دروازے کھل گئے ہیں اگر تو میرے فیصلے کو رد کرنا چاہے تو کردے لیکن یہ سوچ کہ میں دشمن کے ہتھیار ڈالنے پر اسے بخشش کا وعدہ دے چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا، تورومی کہیں گے کہ مسلمان وعدوں کے کچےہیں۔اس کی زد اسلام پر بھی پڑے گی۔‘‘خالدؓکی حالت یہ تھی کہ غصے سے ان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ سالارِ اعلیٰ وہ ہوں اور صلح کے معاہدے کوئی اور کرتا پھرے۔ابو عبیدہؓ اپنی بات پر اس طرح اڑے ہوئے تھے کہ انہیں پرواہ ہی نہیں تھی کہ خالدؓ خلیفہؓ کی طرف سے سالارِ اعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں۔توما ،اس کا نائب سالار ہربیس ،پادری اور مشیر وغیرہ الگ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنی چال کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی۔بلکہ چال ضرورت سے زیادہ کامیاب ہو رہی تھی۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا سپہ سالار اور اس کاقائم مقام سالار آپس میں لڑنے پر آگئے تھے۔ابو عبیدہؓ کی جگہ کوئی اور سالار ہوتا تو خالدؓ اسے سالاری سے معزول کرکے سپاہی بنا دیتے، یا اسے واپس مدینہ بھیج دیتے لیکن وہ ابو عبیدہؓ تھے۔ جنہیں رسولِ اکرمﷺ نے امین الامت کا خطاب دیا تھا۔انہیں الاثرم بھی کہتے تھے کیونکہ ان کے سامنے کے دانت احد کی جنگ میں شہید ہوئے تھے۔ مشہور مؤرخ ابنِ قتیبہ اور واقدی نے لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺکو ابو عبیدہؓ سے خاص محبت تھی۔یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابو عبیدہؓ دانت والوں سے زیادہ خوبرو لگتے تھے ۔ان کا ذہد و تقویٰ ضرب المثل تھا۔خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجاہدین ان کے اشارے پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔خالدؓ کے دل میں ابو عبیدہؓ کا اتنا احترام تھا کہ میدانِ جنگ میں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو خا لدؓگھوڑے پر سوار نہیں تھے۔ ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔خالدؓ چونکہ سالارِ اعلیٰ تھے اس لئے ابوعبیدہؓ نے اتر کر خالدؓ سے ملنا چاہا لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ میرے دل میں اپنے احترام کو قائم رکھیں۔وہ ابو عبیدہؓ اب خالدؓ سے پوچھے بغیر دشمن کے متعلق بڑا اہم فیصلہ کر بیٹھے، اور اسے بدلنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ابو عبیدہؓ عشرہ مبشرہ میں سے بھی تھے۔ابو عبیدہؓ کی تمامخوبیوں اور اسلامی معاشرے میں ان کی قدرومنزلت کو تسلیم کرتے ہوئے اس دور کے وقائع نگار اور مؤرخ لکھتے ہیں کہ جنگی امور کی جو سوجھ بوجھ خالدؓ میں تھی وہ ابو عبیدہؓ میں نہیں تھی۔وہ باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ حرب و ضرب میں مہارت رکھتے تھے۔’’میں تجھے امیر مانتا ہوں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’لیکن یہ سوچ کہ میں اپنے دستوں کے ساتھ پر امن طریقے سے شہر میں لایا گیا ہوں۔‘‘’’ابنِ الجراح!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’آتجھے دکھاؤں کہ میں شہر میں کس طرح داخل ہوا ہوں، اور رات سے اب تک مجھے کیسی لڑائی لڑنی پڑی ہے، ان رومیوں نے دیکھا کہ یہ لڑ نہیں سکتے اور میں شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا تو یہ تیرے پاس جا پہنچے۔میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓنے دبدبے سے کہا۔’’کیا تو اﷲسے نہیں ڈرتا؟میں نے انہیں اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔انسے حفاظت کا وعدہ کر چکا ہوں۔‘‘لیکن خالدؓ ابو عبیدہؓ کی بات ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment