Visitors

قسط نمبر 58

جا ابنِ مرقس!‘‘لڑکی نے کہا۔’’میرا خاوند مسلمان نہیں ہو سکتا۔‘‘اور وہ مر گئی۔یونس ابنِ مرقس دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس لڑکی کی خاطر اس نے دمشق مسلمانوں کو دلوایا تھاپھر یہ خونریز معرکہ لڑایا تھامگر لڑکی نے اپناخون بہا کر اس کی محبت کا خون کر دیا۔مسلمان سواروں نے اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھایا، مالِ غنیمت رومیوں کی گھوڑا گاڑیوں پر لادا، عورتوں اور بچوں کو مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑوں پر بٹھایا اور دمشق کو چل پڑے۔یہ اگلی صبح تھی۔جب مالِ غنیمت وغیرہ اکٹھا کیا جا رہا تھا اس وقت خالدؓ عورتوں کے قریب جا کر احکام دے رہےتھے، انہیں یونس ابن مرقس اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔اس سے پوچھا کہ اسے اپنی بیوی ملی ہے یا نہیں؟’’مل گئی ہے۔‘‘یونسنے روتے ہوئے جواب دیا۔’’لیکن زندہ نہیں۔اس نے اپنے خنجر سے اپنے آپ کو مار دیا ہے۔‘‘’’غم نہ کر ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو اس سے زیادہ قیمتی انعام کا حقدار ہے۔ آ، میں تجھے اس سے زیادہ خوبصورت بیوی دوں گا۔‘‘خالدؓ نے اسے ایک رومی عورت دِکھائی جو جوان تھی اور جس کا حسن لا جواب تھا،اس کا لباس ریشم کا تھا ا----------------------- قیمتی ہار تھا۔’’یہ تیرا مالِ غنیمت ہے۔‘‘خالدؓ نے اسے حسن کا یہ پیکردکھا کر کہا۔’’میں اس کے ساتھ تیری شادی کرادوں گا۔‘‘’’نہیں سالارِ محترم!‘‘یونس ابنِ مرقس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔’’میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا،آپ شاید نہیں جانتے۔یہ شہنشاہِ ہرقل کی بیٹی ہے۔یہ ان کے سالار توما کی بیوی تھی۔‘‘’’اب یہ کسی شہنشاہ کی بیٹی نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اب یہ تیری بیوی ہو گی۔‘‘’’یہ مجھے واپس کرنی پڑے گی۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’ہرقل اپنی بیٹی کو واپس لینے کیلئے اپنی تمام تر سلطنت کی فوج اکٹھی کرکے دمشق پرحملہ کردے گا۔ایسا نہیں کرے گا تو فدیہ ادا کرکے اسے آپ سے واپس لے لے گا۔‘‘خالدؓ خاموش ہو گئے۔اگلی صبح خالدؓواپس روانہ ہوئے۔وہ بہت خوش تھے۔انہوں نے معاہدہ نہیں توڑا تھااور اپنا مقصد بھی پورا کر لیا تھا۔دمشق تک جانے والا راستہ آدھا طے ہوا تھا کہ انطاکیہ کی طرف سے بارہ چودہ گھوڑ سوار آئے۔وہ رومی تھے۔ ان میں ایک اونچی حیثیت کا معلوم ہوتا تھا۔وہ خالدؓ سے ملنا چاہتا تھا، اسے خالدؓ تک پہنچا دیا گیا۔’’میں شہنشاہِ ہرقل کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔’’اور یہ میرے محافظ ہیں، میں امن سے آیا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ سے بھی مجھے امن اور دوستی ملے گی۔‘‘’’کیا پیغام لائے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔ ’’شہنشاہِ ہرقل کو اطلاع مل گئی ہے کہ آپ نے ہماری فوج اور دمشق سے ہجرت کرنے والوں پر حملہ کیا ہے۔‘‘ہرقل کے ایلچی نے کہا۔’’شہنشاہ نےآپ کے حملے کے متعلق کچھ نہیں کہا۔انہوں نے اپنی بیٹی واپس مانگی ہے،اور کہا ہے کہ آپ جس قدر فدیہ طلب کریں گے ، ادا کیا جائے گا۔شہنشاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ فیاض اور کشادہ ظرف ہیں۔اگر آپ فدیہ نہ لینا چاہیں تو میری بیٹی مجھے بخش دیں۔‘‘ہرقل نے خالدؓ کو فیاض اور کشادہ ظرف کہہ کر ان کی خوشامد نہیں کی تھی۔وہی خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کیلئے قہر تھے ، میدان کے باہر اتنے ہی حلیم اور فیاض تھے۔’’اگر تمہارے شہنشاہنے بخشش مانگی ہے تو اس کی بیٹی کو بخشش کے طور پر لے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہااور رکابوں پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے حکم دیا۔’’رومیوں کے شہنشاہ ہرقل کی بیٹی کو اس کے ایلچی کے حوالے کر دو۔خدا کی قسم!میں نے تم سب کی طرف سے اسے بخشش کے طور پر چھوڑ دیاہے۔ہمیں ہرقل کی سلطنت چاہیے اس کی بیٹی نہیں۔‘‘ہرقل کی بیٹی اس کے سفیر کے ساتھ چلی گئی۔یونس ابن مرقس نے ٹھیک ہی کہا تھاکہ ہرقل ہر قیمت پر اپنی بیٹی واپس لے گا،یونس کو خالدؓ نے اپنے حصے کے مالِ غنیمت میں سے بے انداز انعام دینا چاہا لیکن اس نے صاف انکار کر دیااور کہاکہ وہ باقی عمر شادی نہیں کرے گا۔بعد میں اس نے اپنی زندگی اسلام اور جہاد کیلئے وقف کر دی تھی لیکن اس کی باقی زندگی صرف دو سال تھی۔وہ جنگِ یرموک میں شہید ہو گیا تھا۔خالدؓ جب مالِغنیمت کے ساتھ دمشق میں داخل ہوئے تو ان کی فوج نے دیوانہ وار ان کا استقبال کیا۔وہکامیاب لَوٹے تھے۔خالدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنینؓ کے نام بڑا لمبا پیغام لکھوایا جس میں انہیں دمشق کی فتح کی خوشخبری سنائی۔یہ بھی لکھاکہ وہ دمشق میں کس طرح داخل ہوئے تھے اور ابو عبیدہؓ نے کیا غلطی کی تھی۔انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ وہ کس طرح رومیوں کے پیچھے گئے اور ان کے سالاروں توما اور ہر بیس کو ہلاک کیا پھر ہرقل کی بیٹی کس طرح واپس کی، مالِ غنیمت کے متعلق لکھا کہ اس کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے جلدی بھیج دیاجائے گا۔خالدؓ نے یہ پیغام اکتوبر ۶۳۴ء کی پہلی تاریخ (۲شعبان ۱۳ ھ)کے روز بھیجاتھا۔قاصد روانہ ہو گیا۔کئی گھنٹے گزر گئے تو ابوعبیدہؓ خالدؓ کے خیمے میںآئے۔ابو عبیدہؓ مغموم تھے۔خالدؓ نے پوچھا کہ ان کا چہرہ ملول کیوں ہے؟’’ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے بوجھل آواز میں کہا۔’’خلیفہ ابو بکر فوت ہو گئے ہیں، اور اب عمر خلیفہ ہیں۔‘‘خالدؓسُن ہو کر رہ گئے،اور کچھ دیر ابو عبیدہؓ کے منے پر نظریں جمائے رہے۔’’کب فوت ہوئے ہیں؟‘‘خالدؓ نے سرگوشی میں یوں پوچھا جیسے سسکیاں لے رہے ہوں ۔’’۲۲جمادی الآخر کے روز!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔یہ تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء تھی۔حضرت ابو بکرؓ کو فوت ہوئے ایک مہینہ اور آٹھ دن ہو گئے تھے۔ ’’اطلاع اتنی دیر سے کیوں آئی؟‘‘’’اطلاع جلدی آگئی تھی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے جواب دیا۔’’مدینہ سے قاصد آیا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس نے سوچا کہ محاصرے کے دوران یہ اطلاع دی تو اپنے لشکر میں کہرام بپا ہو جائے گا، اور اس محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔اس نے صر ف یہ بتایا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ایک دو دنوں بعد اس نے پیغام مجھے دے دیا اور چلا گیا۔میں نے پڑھا اور یہی بہتر سمجھا کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو اطلاع دوں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے نئے خلیفہ کا خط جوابو عبیدہؓ کے نام لکھا گیا تھا، خالدؓ کو دے کر کہا۔’’اور یہ وہ خبر ہے جو میں تجھے لڑائی ختم ہونے تک نہیں دینا چاہتاتھا۔‘‘خالدؓ خط پڑھنے لگے۔یہ خلیفہ عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا:’’خلیفہ عمر کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام: بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم میں تجھے اﷲسے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔اﷲلازوال ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے، اور اندھیرے میں روشنی دِکھاتا ہے۔میں تمہیں خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔فوراً اپنی جگہ لو، ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔انہیں اس پڑاؤ پر نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھبھال نہ کرلی ہو۔کسی لڑائی کیلئے دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں، اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرناجس سے مومنین کا جانی نقصان ہو۔اﷲنے تجھے میری آزمائش کا، اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایاہے۔دنیاوی لالچوں سے بچتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے تباہ ہوئے ہیں تو طمع سے تباہ ہوجائے۔تو جانتا ہے وہ اپنے رتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘اس خط کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے خالدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا۔ اب ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے۔بلکہ وہ ایک مہینہ آٹھ دن پہلے سے سپہ سالار تھے۔’’اﷲکی رحمت ہو ابو بکر پر!‘‘خالدؓنے خط ابو عبیدہؓ کو دے کر کہا۔ رات جو خالدؓ نے مدینہ سے دور دمشق میں خلیفہ اول ابو بکرؓ کی رحلت پر روتے گزاردی تھی، اس رات ڈیڑھ دو مہینے پہلے مدینہ پر ماتم کے بادل چھانے لگے تھے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ ایسی حالت میں ٹھنڈے پانی سے نہا بیٹھے جب ان کا جسم گرم اور پسینے میں شرابور تھا۔فوراً انہیں بخار ہو گیا۔علاج ہوتا رہا لیکن بخار جسم کو کھاتا رہا۔اگر امیرالمومنینؓ آرام کرتے تو شاید بخار کا درجہ حرارت گر جاتا مگر بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو امور سلطنت میں مصروف رکھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے علاج کروایا ہی نہیں تھا۔انہیں ایک روز تیمارداروں نے کہا کہ طبیب کو بلا کر علاج کرائیں۔’’میں ن طبیب کو بلایا تھا۔‘‘امیرالمومنینؓنے کہا۔’’اس نے کہا تھا کہ علاج اور آرام کی ضرورت ہے۔میں نے اسے کہا تھا کہ میں جو چاہوں گا کروں گا ، میں نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔‘‘’’علاج کیوں نہیں کرایا امیرالمومنین؟‘‘’’آخری منزل پر آن پہنچا ہوں میرے رفیقو!‘‘خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’اﷲنے جو کام میرے سپرد کیے تھے وہ اگر سب کے سب پورے نہیں ہوئے تو میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں نے کوتاہی نہیں کی……میں اﷲکے محبوب کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۃالمسلمین ابو بکر ؓنے اپنے دو سال تین ماہ کے دورِ خلافت میں معجزہ نما کام کیے تھے۔رسولِ کریمﷺ کی وفات کے فوراًبعدارتداد کا جو فتنہ تمام تر سر زمینِ عرب میں پھیل گیا تھا وہ ایک جنگی طاقت تھی جسے ختم کرنے کیلئے اس سےزیادہ جنگی طاقت کی ضرورت تھی۔لیکن ابو بکرؓ نے تدبر سے اور جنگی فہم و فراست سے مجاہدینِ اسلام کی قلیل تعداد کو استعمال کیااور تھوڑے سے عرصے میں ارتداد کے فتنے اور اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا۔اس کے نتیجے میں ان تمام قبیلوں نے جو ارتداد کی لپیٹ میں آگئے تھے۔اسلام قبول کرلیا۔ابو بکرؓ نے آنے والے مسلمان حکمرانوں ، اُمراء اوروزراء کیلئے یہ سبق ورثے میں چھوڑا کہ ان میں بے لوث جذبہ ہو، اقتدار کی ہوس، اور کوئی ذاتی مفاد نہ ہو تو پوری قوم مجاہدین کا لشکر بن جاتی ہے اور قوم کی تعداد کتنی ہی کمکیوں نہ ہو وہ کفر کی چٹانوں کے دل چاک کر دیا کرتی ہے۔یہ سربراہِ سلطنت پر منحصر ہے کہ قوم فتح کامرانی کی رفعتوں تک جاتی ہے یا ذلت و رسوائی کی اندھیریکھائیوں میں۔ارتداد کے علاوہ بھی کہیں بغاوت اورکہیں شورش تھی۔خلیفہ ابو بکرؓ نے ہر سو امن و امان قائم کر دیا تھا۔فتنہ و فساد نہ رہا۔ بغاوت اور شورش نہ رہی تو ابو بکرؓ نے انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو فارس جیسی شہنشاہی کے خلاف اور پھر اسی جیسی دوسری بڑی جنگی طاقت کے خلاف بھیج دیا۔مجاہدین نے کسریٰ کی طاقت کو کچل کر اس کے بے شمار علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا پھر قیصرِ روم کی فوج پر دہشت بن کر چھاگئے اور اس کے کئی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔کسریٰ بھی اور قیصر بھی اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔مسلمانوں نے خلیفہ اولؓ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے، ان دونوں دشمنانِ اسلامکا گھمنڈ توڑ دیا اور اسلامی فوج کو ایک طاقت بنا دیا۔انہی جنگوں میں مجاہدین کو فوج کی صورت میں منظم کیا گیاتھا۔ابو بکرؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسلام ایک مذہب کی صورت میں ہی عرب سے عراق اور شام میں نہ پھیلا بلکہ اس سے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب بھی پھیلی بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا جسے لوگوں نے اسلامی کہا اور اسے اپنایا۔اس سے پہلے تو لوگ فارس اور روم کے کلچر کو ہی تہذیب و تمدن سمجھتے تھے اور اسے فوراً قبول کر لیتے تھے- خلیفہ اولؓجیسے تھک سے گئے تھے،اور پوری طرح سے مطمئن تھے کہ وہ خالق حقیقی کے حضور جا رہے ہیں، اور سرخرو جا رہے ہیں۔اس دور کی تحریروں سے اور مؤرخین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بکرؓ کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔یہ تھا ان کی جانشینی کا مسئلہ۔ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا۔’’میرے اﷲ کے رسول (ﷺ)کو موت نے اتنی مہلت نہیں دی تھی کہ کسی کو خود خلیفہ مقرر کرتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا تھا۔’’اور سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پر فتنہ و فساد پیدا ہو گیا تھا۔یہ تو اﷲ کو منظور نہ تھا کہ اس کے رسول(ﷺ) کی امت جس کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے، آپس میں لڑ کر ختم ہو جائے۔اﷲنے امت کا اتحاد میرے ہاتھ پر قائم رکھا۔خدا کی قسم!میں رسول(ﷺ) کی امت کو اس فساد میں نہیں ڈال کر مروں گا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہو۔ میں خود خلیفہ مقرر کرکے جان اﷲکے سپرد کروں گا۔‘‘عظیم تھے خلیفہ اولؓ کہ انہوں نے یہ بات سوچ لی تھی۔اس دور کے تھوڑا عرصہ بعد کے وقائع نگار اور مبصر لکھتے ہیں کہ خلیفہ اولؓ نے سوچ لیا تھا کہ قبیلوں یا طبقوں یا افراد میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو قوم کا اتحاد پھٹے ہوئے دامن کی مانند ہو جاتا ہے۔فوجوں کی پیش قدمی پسپائی میں بدل جاتی ہے، پیچھے ہٹتا ہوا دشمن آگے بڑھنے لگتا ہے۔ پھر فوج بھی اقتدار کی جنگ کا ہتھیار بن جاتی ہے اور سالار سلطانی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ دور فتوحات سے مالامال ہو رہا تھا۔درخشاں روایات جنم لے رہی تھیں اور یہی تاریخِ اسلام کی بنیاد بن گئی تھیں۔ابو بکرؓ کی دوربیں نگاہوںنے دیکھ لیا تھا کہ قیصرو کسریٰ جو پسپائی اور زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں،اور نیست و نابود ہوجانے تک پہنچ گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نفاق سے فائدہ اٹھائیں گے، اور عفریت بن کر اسلام کو نگل جائیں گے۔’’کیا عمرکو لوگ قبول کرلیں گے؟‘‘ابو بکرؓ نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا۔’’شاید نہ کریں……عمر کا مزاج بہت سخت ہے……اپنے احباب سے مشورہ لے لیتا ہوں۔‘‘ابو بکرؓ نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور تنہائی میں بٹھایا۔’’ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کیا تو مجھے سچے دل سے بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟تو اسے کیسا سمجھتاہے؟‘‘’’خدا کی قسم خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’جو میں جانتا ہوں، وہ اس سے بہتر نہیں جو تو جانتا ہے۔‘‘’’جو کچھ بھی تو جانتا ہے کہہ دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو عمر بن خطاب سے بہتر ہو۔ لیکن اس کی طبیعت میں جو سختی ہے، وہ بھی ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘ ’’رائے میری بھی یہی ہے ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم سب کو عمر کی سختی اس لئے زیادہ محسوس ہو تی ہے کہ میرے مزاج میں بہت نرمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ اپنے بعد خلافت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دوں تو اس کی سختی کم ہوجائے؟……ایسے ہی ہوگا۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میں کسی پر سختی کرتا ہوں تو عمر اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے؟اور اگر میں کسی کی غلطی یا کوتاہی پر اپنا رویہ نرم رکھتا ہوں تو عمر اس پر سختی کرتا ہے؟وہ سمجھتا ہے کہ کب سختی اور کب نرمی کی ضرورت ہے۔‘‘’’بے شک !ایسا ہی ہے۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!بے شک ایسا ہی ہے۔‘‘’’اس بات کا خیال رکھنا ابو محمد(عبدالرحمٰنبن عوف)!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میرے تیرے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی تک نہ پہنچیں۔‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف چلے گئے تو امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک اوررفیق اور مشیر عثمانؓ بن عفان کو بلایا۔’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔کیا تو بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟‘‘’’امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم!ابنِ خطاب کو تو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے پھر تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے؟‘‘’’اس لئے کہ میں اپنی رائے رسول اﷲ(ﷺ) کی امت پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں تیری رائے ضرور لوں گا۔‘‘’’امیرالمومنین !‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’عمر کا باطن اسکے ظاہر سے اچھا ہے، اور جو علم و دانش اس کے پاس ہے وہ ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘’’ایک اور سوال کا جواب دے دے ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سےکہا۔’’اگر میں اپنے بعد خلافت عمر کے سپرد کرجاؤں تو تیرا کیا خیال ہے کہ وہ تم سبپر سختی کرے گا؟‘‘’’ابنِ خطاب جو کچھ بھی کرے گا ہم اس کی اطاعت میں فرق نہیں آنے دیں گے۔‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ابو عبداﷲ!اﷲ تجھ پررحم و کرم کرے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں نے جو تجھے کہا اور تو نے جو مجھے کہا۔یہ کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچے۔‘‘ابو بکرؓ نے کئی اور صحابہؓ سے عمرؓ کے متعلق رائے لی۔ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ابو بکرؓ نے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے اس گفتگو کا ذکر تک نہ کرے، لیکن یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات کی۔یہ آئندہ خلافت کامعاملہ تھا اور صحابہ کرامؓ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ابو بکرؓ عمرؓ کو خلیفہ مقرر کررہے تھے۔عمرؓ سخت طبیعت کے مالک تھے۔ان کے فیصلے بڑے سخت ہوتے اور وہ بڑی سختی سے ان پر عمل کراتے تھے۔ ان سب نے ایک وفد اس مقصد کیلئے بنایا کہ ابو بکرؓ کو قائل کریں کہ عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ مقرر نہ کریں۔جبوفد خلیفہ اولؓ کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔بخار نے انہیں اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اپنے زور سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔’’امیرالمومنین!‘‘وفد کے قائد نے کہا۔’’خدا کی قسم!عمر خلیفہ نہیں ہو سکتا۔اگر تو نے اس کو خلیفہ مقرر کر دیاتو اﷲکی باز پرس کا تیرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔عمر تیری خلافت میں سب پررعب اور غصہ جھاڑتا ہے وہ خود خلیفہ بن گیاتو اس کا رویہ ظالموں جیساہو جائے گا۔‘‘ابو بکرؓ کو غصہ آگیا۔انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ انہوں نے غصیلی آواز میں کہا۔انہیںسہارا دے کر بٹھادیا گیا۔’’کیا تم سب مجھے اﷲکی باز پرس سے اور اس کے غضب سے ڈرانے آئے ہو؟‘‘ ابو بکرؓ نے غصے اور نقاہت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں اﷲکے حضور جا کرکہوں گا کہ میرے رب! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین بندے کو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے، اور میں نے جو کہا ہے وہ تمام لوگوں کو سنا دو۔میں نے عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘وہ جو سب ابو بکرؓ کو ان کے فیصلے کے خلاف قائل کرنے آئے تھے خاموش ہو گئے،اور شرمسار بھی ہوئے کہ انہوں نے امیرالمومنینؓ کو بیماری کی حالت میں پریشان کیا ہے۔وہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے اگلے روز ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا، عثمانؓ خلیفہ کے کاتب تھے۔ ’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’لکھ جو میں بولتا ہوں۔‘‘ انہوں نے لکھوایا۔ ’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔ یہ وصیت ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس وقت لکھوائی ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوکر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا تھا۔ایسے وقت پکا کافر بھی ایمان لے آتا ہے، اور جس نے کبھی سچ نہ بولا ہو، وہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے، میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔اگر عمر نے تم پر زیادتی کی اور عدل و انصاف نہ کیا تو وہ ہر انسان کی طرح اﷲکے حضور جواب دہ ہو گا۔مجھے امید ہے کہ عمر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا۔میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں تمہاری بھلائی اور بڑائی کے سوا اور کچھ نہیں سوچا۔‘‘وصیت لکھواتے لکھواتے ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی تھی، انہوں نے یہاں تک لکھوایا۔’’ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو……‘‘اور وہ غشی میں چلے گئے۔عثمانؓ بن عفان نے خود یہ فقرہ مکمل لکھ دیا ۔’’ تمہارا خلیفہمقرر کرتا ہوں۔تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔‘‘ ابو بکرؓ ہوش میں آگئے-ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’پڑھ جو میں نے لکھوایا ہے۔‘‘ عثمانؓ بن عفان نے پڑھ کر سنایا۔’’اﷲاکبر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم نے جو سوچ کرلکھا ہے وہ سوچ غلط نہیں تھی۔تو نےیہ سوچ کر عبارت پوری کردی، کہ میں غشی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا تو نا مکمل وصیت خلافت کیلئے جھگڑے کا باعث بن جائے گی۔‘‘’’بے شکامیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’میں نے یہی سوچ کر عبارت مکمل کرلی تھی۔‘‘’’اﷲتجھے اس کی جزا دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’انہوں نے عثمانؓ بن عفانکے الفاظ نہ بدلے اور وصیت مکمل لکھوادی۔’’مجھے اٹھا کر مسجد کے دروازے تک لے چلو۔‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا۔ان کے مکان کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ وہ دروازہ کھولا گیا، نماز کا وقت تھا، بہت سے لوگ مسجد میں آچکے تھے۔ ابو بکرؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے سہارا دے کر مسجد والے دروازے تک لے گئیں۔ نمازیوں نے انہیں دیکھاتو متوجہ ہوئے۔’’میرے بھائیو!‘‘ابو بکرؓ نے نقاہت کے باوجود بلند آواز سے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو گے جسے میں خلیفہ مقررکروں؟ میں نے اس میں تمہاری بھلائی سوچی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ میرے بعد عمر بن خطاب خلیفہ ہوگا۔ کیا تم سب اس کی اطاعت کرو گے؟‘‘’’ہاں امیرالمومنین!‘‘بہت سی آوازیں سنائی دیں۔’’ ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ہم ابنِ خطاب کی اطاعت قبول کریں گے۔‘‘اس کے بعد ابو بکرؓ نے وصیت پر اپنی مہر ثبت کردی۔ابو بکرؓ کا پیشہ تجارت تھا لیکن خلافت کابوجھ کندھوں پر آپڑا تو تجارت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ گزر اوقات تو کرنی ہی تھی، انہوں نے اپنے کنبے کیلئے بیت المال سے کچھ الاؤنس منظور کرا لیا تھا، اب جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، تو انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا، کہ ان کی جو تھوڑی سی زمین ہے وہ ان کی وفات کے بعد بیچ کر یہ تمام رقم جو وہ گزارے کیلئے بیت المال سے لیتے رہے ہیں، بیت المال میں جمع کرادیں۔’’سب میرے قریب آجاؤ!‘‘ ابو بکرؓ نے آخری وقت اہلِ خانہ کو بٹھا کر کہا۔’’ مجھے صرف دو کپڑوں کا کفن پہنا کر دفن کرنا، تم دیکھتے رہے ہو کہ میں ایک ہی کپڑا پہنا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک کپڑا اور ملالینا، ان کپڑوں کو پہلے دھو لینا۔‘‘’’ہم تین نئے کپڑے لے سکتے ہیں۔‘‘عائشہؓ نے کہا۔’’کفن تین کپڑوں کا ہوتا ہے۔‘‘ ’’نہیں عزیز بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کفن تو اس لئے ہوتا ہے، کہ جسم سےکوئی مواد اور نمی نکلے تو اسے کفن چوس لے۔کفن پرانے کپڑوں کا ہوا تو کیا؟نئے کپڑے پہننے کا حق زندہ لوگوں کا ہے۔مجھے غسل اسماء بنت عمیس (زوجہ)دے گی، اگر اکیلے غسل نہ دے سکے تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے لے۔‘‘ اتنے میں اندراطلاع دی گئی کہ عراق کے محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے کہا کہ امیرالمومنینؓ اس وقت بات کرنے کے قابل نہیں۔امیرالمومنینؓ نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔’’اسے آنے دو۔وہ بہت دور سے آیا ہے۔جب تک میرا سانس چل رہا ہے،میں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں کر سکتا۔‘‘مثنیٰ کو اندر بلا لیا گیا۔انہوں نے جبابو بکرؓ کی حالت دیکھی تو پشیمان ہو گئے، اور بات کرنے سے جھجکنے لگے۔’’مجھے گناہگار نہ کر ابنِ حارثہ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہو سکتا ہے تو مدد لینے آیاہو۔میں اگر تیرے لیے کچھ نہ کر سکا تو اﷲکی باز پرس پر کیا جواب دوں گا؟‘‘’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’محاذ ہمارے قابو میں ہے۔حالات ہمارے حق میں ہیں لیکن تعداد کی کمی پریشان کرتی ہے۔مسلمان اب اتنے نہیں رہے کہ انہیں فوج میں شامل کرکے محاذوں پر بھیجا جائے۔جو جہاد کے قابل تھے وہ پہلے ہی محاذوں پر ہیں۔امیرالمومنین کے حکم سے ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا جو مرتد ہو گئے تھے۔میں یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سچے دل سے اسلام قبول کر چکے ہیں اور محاذوں پر جانا چاہتے ہیں۔کیا امیرالمومنین انہیں فوج میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟‘‘’’ابنِ خطاب کو بلاؤ۔‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔عمرؓ دور نہیں تھے،جلدی آگئے۔’’ابنِ خطاب!‘‘امیرالمومنینؓ نے عمرؓ سے کہا۔’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر روانہ کر……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو اس کام میں رکاوٹ نہ ہو۔‘‘عربوں میں رواج تھا کہ باتیں شاعرانہ الفاظ اور انداز سے کیا کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ کی نزع کے وقت کی چند باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ان کی بیٹی عائشہؓ ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔انہوں نے باپ کو نزع کے عالم میں دیکھ کر اس وقت کے ایک شاعر حاتمکا ایک شعر پڑھا:’’نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، سانس نہ آنے سے سینہ گھٹنے لگتا ہے، تو دولت انسان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘’’نہیں بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے نحیف آواز میں کہا۔’’ہمیں دولت سے کیا کام؟اس شعر کے بجائے تو نے قرآن کی یہ آیت کیوں نہ پڑھی……تجھ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے ۔یہی ہے وہ وقت جس سے تو ڈرا کرتا تھا۔‘‘ابو بکرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو انہیں آخری ہچکی آئی۔انہوں نے سرگوشی میں یہ دعا کی۔’’یا اﷲ!مجھے مسلمان کی حیثیت میں دنیا سے اٹھانا اور بعد از مرگ مجھے صالحین میں شامل کرنا۔‘‘یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کے آخری الفاظ تھے۔دن سوموار تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء (بمطابق ۲۱جمادیالآخر ۱۳ ہجری)تھی۔ اسی رات دفن کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ابو بکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کی زوجہ اسماء بنتِ عمیس نے غسل دیا۔میت پر پانی ان کے بیٹے عبدالرحمٰن ڈالتے جاتے اور عبدالرحمٰن کی والدہ غسل دیتی جاتی تھیں۔غسل کے بعد وہ چارپائی لائی گئی جس پر رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک قبر تک پہنچایا گیا تھا۔ اس چارپائی پر خلیفہ رسول کا جنازہ اٹھا،اور جنازہ مسجدِ نبوی میں رسول اﷲﷺکے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔نمازِ جنازہ کی امامت عمرؓنے کی۔مدینہ کی وہ رات سوگوار تھی۔گلیوں میں ہچکیاں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔رات بھی رو رہی تھی،وہ عٖظیم ہستی اس دنیا سے اٹھ گئی تھی جس نے اسلامی سلطنت کی نہ صرف بنیادیں مضبوط بنائی تھیں۔بلکہ ان پر مضبوط عمارت کھڑی کر دی تھی۔ابو بکرؓ کو رسولِ کریمﷺ کے پہلومیں دفن کیا گیا۔قبر اس طرح کھودی گئی کہ ابو بکرؓ کا سر رسولِ کریمﷺ کے کندھوں کے ساتھ تھا۔اس طرح رسولِ کریمﷺ اور خلیفہ رسول کی وہ رفاقت جو انہوں نے زندگی میں قائم رکھی تھی ، وفات کے بعد بھی قائم رہی۔ابو بکرؓ سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اب خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ تھے۔انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے روز ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہخالدؓ کی معزولی کا تھا۔انہوں نے تحریری حکم نامہ ابو عبیدہؓ کے نام قاصد کے ہاتھ بھیج دیا۔خالدؓ اب سالارِ ااعلیٰ نہیںبلکہ نائب بنا دیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کسی مفتوحہ علاقےکے امیر نہیں بن سکتے تھے۔مدینہ میں عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوسرے دن مسجد نبوی میں نماز کی امامت کی اور خلیفہ کی حیثیت سے پہلا خطبہ دیا۔انہوں نے سب سےپہلے یہ بات کہی:’’قوم اس اونٹ کی مانندہے جو اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔اسے جہاں بٹھا دیا جاتا ہے وہ اسی جگہ بیٹھا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہتا ہے۔رب کعبہ کی قسم!میں تمہیں صراطِ مستقیم پرچلاؤں گا۔‘‘انہوں نے خطبے میں اور بھی بہت کچھ کہااور آخر میں کہا۔’’میں نے خالدبن ولید کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا ہے، اور ابو عبیدہ اس فوج کے سالارِ اعلیٰ اور شام کے مفتوحہ علاقوں کے امیر ہیں۔‘‘مسجد میں جتنے مسلمان موجود تھے ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔بعض کے چہروںپر حیرت اور بعض کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔خالدؓ کی فتوحات تھوڑی اور معمولی نہیں تھیں۔ابو بکرؓ ان کی ہر فتح اور ہر کارنامہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور یہ خبر تمام تر عرب میں پھیل جاتی تھی۔خالدؓ کی زیادہ تر فتوحات معجزہ نما تھیں،اس طرح خالدؓ سب کیلئے قابلِ احترام شخصیت بن گئے تھے مگر عمرؓنے خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔ہر کوئی عمرؓ سے پوچھنا چاہتا تھاکہ خالدؓ نے کیا جرم کیا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے؟ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پوچھے بغیر عمرؓکے فیصلے کی مخالفت کرناچاہتے تھے لیکن کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ عمرؓ سے باز پرس کرتا۔سب جانتے تھے کہ عمرؓ ابو بکرؓ جیسے نرممزاج نہیں،اور ان کی طبیعت میں اتنی درشتی ہے جو بعض اوقات برداشت سے باہر ہو جاتی ہے-

No comments:

Post a Comment

The day of the most tough error For the Deniers

For the deniers  . The day of the most Tough error.  For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...