خالدؓ کی فوج جس کی تعداد بتیس ہزار سے کم ہو گئی تھی ،بظاہر بے ترتیبقافلے کی صورت میں دمشق کی جانب جا رہی تھی ، لیکناس کے ہر دستے کو اپنے فرائض کا علم تھا۔ان میں ہراول دستہ بھی تھا اور ان میں عقب اور پہلوؤں کے حفاظتی دستے بھی تھے اور یہ تمام دستے چوکنے ہو کر چلے جارہے تھے،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ان پر حملہ ہو سکتا تھا،داؤد عیسائی نے خالدؓکو خبردار کیا تھا کہ وہ تو ابھی روم کی شہنشاہی میں داخل ہوئے ہیں اور اسشہنشاہی کی حدود بہت وسیع ہیں۔اس وقت تک رومی فوج کے دستے جہاں جہاں تھے وہاں ہرقل کا یہ حکم پہنچ چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج کو روکاجائے۔اس حکم کے تحت دمشق کی طرف جانے والے راستوں پر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج دیئے تھے ۔دریائے یرموککے کنارے واقوصہ ایک قصبہ تھا۔کسی رومی جاسوس نے خالدؓ کے لشکر کو آتے دیکھ لیااور پیچھے جاکر اطلاع دی۔جب خالدؓ واقوصہ کے قریب پہنچے تو رومی فوج کے بہت سے دستے خالدؓکا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اجنادین کی لڑائی سے بھاگے ہوئے کئی رومی فوجی واقوصہ پہنچ چکے تھے۔انہیں بھی ان دستوں میں شامل کر لیا گیا تھا جو مسلمانوں کو روکنے کیلئے جنگی ترتیب میں کھڑے تھے مگر ان میں لڑنے کا جذبہ سرد تھا۔کیونکہ ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا،جن کمانداروں اور سپاہیوں نے ابھی مسلمانوں سے جنگ نہیں لڑی تھی ، وہ اجنادین کے بھگوڑوں سے پوچھتے تھے کہ مسلمان لڑنے میں کیسے ہیں؟’’دیکھ لو!‘‘انہیں کچھ اس قسم کے جواب ملے۔’’تیس ہزار نے نوّے ہزار کو اس طرح شکست دی ہے کہ سپہ سالار سے چھوٹے سے سالار تک ایک بھی زندہ نہیں……انہوں نے ہماری آدھی نفری مار ڈالی ہے۔زخمیوں کا کوئی حساب ہی نہیں……مت پوچھو دوستو، مت پوچھو۔ میں تو انہیں انسان سمجھتا ہی نہیں۔ان کےپاس کوئی جادو ہے یا وہ جنات جیسی کوئی مخلوق ہیں……ان کا ایک ایک آدمی دس دس آدمیوں کا مقابلہ کرتا ہے……ان کے سامنے کوئی جم کر لڑ ہی نہیں سکتا……پوچھتے کیا ہو، وہ آرہے ہیں۔خود دیکھ لینا۔‘‘’’وہ‘‘آئے اور ’’انہوں‘‘نے دیکھ لیا۔دیکھ یہ لیا کہ مسلمان جو بے ترتیب قافلے کی طرح آرہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ جنگی ترتیب میں ہو گئے۔عورتیں اور بچے پیچھے رہ گئے،اور ان کا حفاظتی دستہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔خالدؓ اپنے محافظوں وغیرہ کے ساتھ آگے ہو گئے اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خالدؓکی جنگی چالوں کااور مجاہدین کو لڑانے کا انداز ایسا تھا کہ دشمن بوکھلا جاتا پھر مسلمانوں کے حملے کی شدت سے دشمن کے سپاہیوں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ان میں سے جو سپاہی بھاگ نکلتے تھے ، وہ جہاں جاتے اس خوف کو اپنے ساتھ لے جاتے، اور فوج میں پھیلاتے تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلاوجہ نہیں بھاگے، وہ اس خوف کو مبالغے سے اور ایسے طریقے سے بیان کرتے کہ سننے والے یہ سجھ لیتے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے۔اس طرح خالدؓنے دشمن پر ایک نفسیاتی اثر ڈال رکھا تھا جو ہر میدان میں ان کے کام آتا تھا۔ یہ قوت مافوق الفطرت ہی تھی جو عقیدے کی سچائی ، ایمان کیپختگی اور جذبے کی شدت سے پیدا ہوئی تھی۔مسلمان اﷲکے حکم سے لڑتے تھے، ان کے دلوں میں کوئی ذاتی غرض یا لالچ نہیں تھا۔واقوصہ کے میدان میں جب رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو ان کے انداز میں جوش و خروش تھا اور جارحیت بھی شدید نظر آتی تھی لیکن خالدؓنے جب حملہ کیا تو رومیوں میں لڑنے کا جذبہ اتنا شدید نہ تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔خالدؓنےسامنے سے حملہ کیا اور دونوں پہلوؤں کے کچھ دستوں کو پھیلا کر اس حکم کے ساتھ آگے بڑھایا کہ دشمن کے پہلوؤں کی طرف جاکر حملہ کریں۔مؤرخوں کے مطابق رومی سامنے سے حملے کو روکنے کیلئے ایسی صورت اختیار کر بیٹھے کہ اپنے پہلوؤں کو نہ دیکھ سکے۔ان پر جب دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہوا اور ان کے دائیں بائیں کے دستے مسلمانوں کے دباؤ سے اندر کو سکڑنے اور سمٹنے لگے تووہ گھبرا گئے،اور ان پر وہ خوف طاری ہو گیا جوخالدؓ کے نام سے منسوب تھا،اس خوف نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ان رومی دستوں کیلئے حکم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکے رکھیں۔وجہ یہ تھی کہ دمشق میں جو رومی فوج تھی اس میں دوسری جگہوں سے دستے بھیج کر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ہرقل ا س کوشش میں تھا کہ اس کے یہ دستے مسلمانوں سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔اس کیلئے ضروری تھا کہ واقوصہ میں مسلمانوں کی فوج کو روک لیا جاتا اور ایسی لڑائی لڑی جاتی جو طول پکڑ جاتی۔ایسی لڑائی کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔خالدؓ نے رومیوں کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔رومی بے شمار لاشیں اور زخمی میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔خالدؓوہاں اتنا ہی رُکے کہ اپنے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر دفن کیا، زخمیوں کو ساتھ لیا،اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا اور چل پڑے۔یہ اگست ۶۳۴ء کا تیسرا ہفتہ (جمادی الآخر ۱۳ ھ)تھا۔ شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ جا پہنچا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔حمص سے انطاکیہ کو روانہ ہونے سے پہلے اس نے دمشق کی رومی فوج کے سالاروں توما، ہربیس، اور عزازیر کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فوراً انطاکیہ پہنچیں ۔ہرقل کے پہنچتے ہی تینوں سالار انطاکیہ پہنچ گئے۔’’کیا تم نے سن لیا ہے کہ تمہارے سالار وردان اور قبقلار بھی مارے جا چکے ہیں؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھی قیصرِ روم کی عظمت کو ذہن سے اتار دو گے؟کیا تمہاری نظروں میں بھی صلیب کا تقدس ختم ہو چکا ہے؟‘‘’’مسلمان ابھی تو ہمارے سامنے آئے ہینہیں۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’ہمیں ابھی نہ آپ نے آزمایا ہے نہ مسلمانوں نے۔انہیں آنے دیں۔میں آپ کی بیٹی کے آگے شرمسار نہیں ہوں گا۔‘‘توما شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھااور وہ دمشق کا سپہ سالار تھا۔بڑا پکا مذہبی آدمی تھا اور اپنے مذہب عیسائیت کے فروغ اور تحفظ کیلئے سرگرم رہتاتھا۔’’توما!‘‘ہرقل نے اسے کہا۔’’تم مذہب میں اتنے مگن رہتے ہو کہ دمشق کے دفاع کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘’’میں تو یہ سمجھتاہوں کہ مذہب نہ رہا تو دمشق بھی نہیں رہے گا۔‘‘توما نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی مذہب میں شامل ہے؟……میں یہاں اکیلا تو نہیں۔جنگی معاملے سالار ہربیس کے پاس ہیں،اور سالار عزازیر بھی میرے ساتھ ہے۔کیا عزازیر فارسیوں کو اور پھر ترکوں کوکئی لڑائیوں میں شکستیں نہیں دے چکا ہے؟‘‘’’جتنا بھروسہ مجھے عزازیر پر ہے اتنا تم دونوں پر نہیں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’عزازیر تجربہ کار سالار ہے۔تم دونوں کوابھی ثابت کرناہے کہ تم عزازیر کے ہمپلہ ہو۔‘‘عزازیر رومیوں کا بڑا ہی قابل اور دلیرسالار تھا۔اس نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کی تھی،عربیزبان پر اسے اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ عربیبولتا تو شک ہوتا تھا کہ عرب کا رہنے والا ہے۔دمشق کی فوج کا کمانڈر دراصل وہی تھا۔انطاکیہ میں کُلوس نام کا ایک رومی سالار تھا۔اسے ہرقل نے پانچ ہزارنفری کی فوج دے کر دمشق جانے کو کہا۔ ’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘کُلوس نے کہا۔’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے اس وقت آؤں گا جب میری برچھی کی انّی کے ساتھ مدینہ کے سالار خالد بن ولید کا سر ہوگا۔‘‘’’تم مجھے صرف حلف سے خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں صرف ابنِ ولید کا سر نہیں، تمام مسلمانوں کی لاشیں دیکھناچاہتا ہوں……فوراً دمشق پہنچو۔ وہاں کمک کی ضرورت ہے۔سب چلے جاؤ اور دمشق کو بچاؤ۔‘‘ تمام سالار فوراً روانہ ہو گئے ۔ہرقل کا ایک مشیرِ خاص ہرقل کے پاس موجود رہا۔’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘اس مشیر نے کہا۔’’سالار کُلوس کو دمشق نہ بھیجتے تو اچھا تھا۔اگر اسے بھیجنا ہی تھا تو سالار عزازیر کو دمشق سے نکال لیتے۔‘‘’’کیوں؟‘‘’’کیا شہنشاہ بھول گئے ہیں کہ ان دونوں میں ایسی چپقلش ہے جو دشمنی کی صورت اختیار کر جایا کرتی ہے۔‘‘مشیر نے کہا۔’’ان کی آپس میں بول چال بند ہے……دراصل کُلوس عزازیر کی اچھی شہرت سے حسد کرتا ہے، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ خطرہ محسوس کر رہے ہوکہ وہ لڑائی کے دروان ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہِ روم!‘‘مشیر نے کہا۔’’میں یہی خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’انہیں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مل کرنہ لڑے تو بڑی بُری شکست کھائیں گے،اور وہ مجھے خوش کرنے اور ایک دوسرے کو میری نظروں میں گرانے کیلئے جوش و خروش سے لڑیں گے……اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانےکی کوشش کی تو انہیں یقیناًمعلوم ہو کہ ان کی سزا کیا ہوگی۔‘‘مشیر خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار پہلے سے زیادہ ہو گئے۔خالدؓ کے مجاہدین دمشق کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔رومی سالار عزازیر نے دمشق پہنچتے ہی شہر کے دفاع کو مضبوط بنانا شروع کر دیا۔دمشق کی شہرِ پناہ کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا ایک نام تھا۔عزازیر نے دمشق کو محاصرے سے بچانے کا یہ انتظام کیا کہ زیادہ فوج شہر کے باہر رکھی تاکہ مسلمانوں کو شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔انہیں شہر سے باہر ختم کر دیا جائے۔شہر میں خاص طور پرمنتخب کیے ہوئے دستے رکھے گئے۔ان میںایک محافظ دستہ تھا جسے جانباز دستہ کہا جاتا تھا۔اس ایک میل سے کچھ زیادہ لمبے اور چار فرلانگ چوڑے شہر کی آبادی میں اس خبرنے ہڑبونگ بپاکردی تھی کہ مسلمان شہرکو محاصرے میں لینے آرہے ہیں۔اس خبرسے پہلے مسلمانوں کی دہشت شہر میںداخل ہو چکی تھی۔سالار شہریوں کو بھی شہر کے دفاع کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن شہریوں سے انہیں تعاون نہیں مل رہا تھاشہری تو اپنا مال و دولت اور اپنی جوان لڑکیوں کو چھپاتے پھر رہےتھے۔ان میں سے بعض نے اپنے کنبوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔مجاہدین کا لشکر دمشق سے زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا۔جاسوس جو آگے گئے ہوئے تھے وہ باری باری پیچھے آتے ، رپورٹ دیتے اور پھر آگے چلے جاتے تھے۔اب مجاہدین کی جذباتی کیفیت ایسی تھی جیسے ان کا کوئی گھر نہ ہو، کوئی وطن نہ ہو، بیوی نہ ہو، بچہ نہ ہو، بس اﷲہی اﷲہو، جس کے نام کا وہ ورد کرتے جاتے یا چند مجاہدین مل کرکوئی جنگی ترانہ گاتے تھے۔انہوں نے اپنا رشتہ اﷲکے ساتھ اور رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس کے ساتھ جوڑلیا تھا۔انہوں نے اپنی جانیں اﷲکی قربان گاہ پر رکھ دیں تھیں۔رومیوں کیلئے وہ جسم تھے لیکن اپنے لیے وہ روحیں تھیں، اور اپنے جسموں اور تکالیف اور ضروریات سے وہ بے نیاز ہو گئے تھے- انہیں تو جیسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اوردشمن کی تعداد کئی گنا ہے۔ان کے سپہ سالار خالدؓ کی جذباتی کیفیت بھی ایسی ہی تھی لیکن تاریخکے اس عظیم جرنیل کی نگاہ حقائق پر تھی۔وہ سوچتے رہتے تھے کہ اتنی کم نفری کو اتنی زیادہ نفری کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔انہوں نے رومیوں کو دیکھ لیا اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک عمدہ فوج ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشِ نظر رکھا تھا کہ رومی اپنے ملک میں ہیں اور جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں وہ ہمیں نہیں مل سکتیں۔شکست کی صورت میں مسلمانوں کیلئے وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں قید یا قتل ہونا تھا۔ان احوال و کوائف کے پیشِ نظر خالدؓ نے اپنی فوج میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔ایک تو انہوں نے جاسوسی کے انتظامات اور ذرائع کو پہلے سے بہتر بنا کر انہیں منظم کردیا،چند اور تبدیلیوں میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ خالدؓنے ایک سوار دستہ بنایا جس میں چار ہزار منتخب گھوڑ سوار رکھے۔یہ تیز رفتار اور متحرک دستہ تھا۔اسے طلیعہ کہتے تھے۔متحرک سے مراد یہ ہے کہ اس رسالے نے جم کر نہیں بلکہ بھاگتے دوڑتے ، اور اِدھر اُدھر ہو جاتے اور دشمن کو گھما پھرا کر لڑاتے جنگ میں شریک رہنا تھا۔خالدؓ نے اس دستے کی کمان اپنے ہاتھمیں رکھی،دمشق کی جانب کوچ کے دورانیہ سوار دستہ مسلمانوں کے لشکر کے ہراولمیں تھا۔کوچ کا چوتھا دن تھا۔ہراول کایہ سوار دستہ ایک بستی مراج الصفر کے قریب پہنچا تو آگے گئے ہوئے دو جاسوس آئے۔خالدؓ اس دستے کے ساتھ تھے۔جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ تھوڑیدور آگے رومی فوج تیاری کی حالت میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔جاسوسوں کے اندازے کے مطابق وہ مقام دمشق سے بارہ تیرہ میل دور تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس رومی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی،اور اس میں زیادہ تر سوار تھے،اس کے دو سالار تھے،ایک عزازیر اور دوسرا کلوس۔یہ وہی سالارتھے جن کی آپس میں دشمنی تھی۔انہیں دمشق کے سپہ سالارتوما نے اس منصوبے کےتحت بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کو دمشق تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اگر اسے تباہ نہ کیا جا سکے تو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ واپس چلاجائے۔اگر یہبھی نہ ہو سکے تو اتنی سی کامیابی ہر قیمت پر حاصل کی جائے کہ مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ دن دمشق سے دور رکھا جائےتاکہ دمشق کے دفاع کیلئے مزید دستے وہاں پہنچائے جا سکیں اور شہر میں اتنی خوراک پہنچا کر جمع کی جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ اجائے تو شہر میں قحط کی صورت پیدا نہ ہو۔خالدؓ کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہراول کا صرف یہ سوار دستہ تھا جس کی نفری چار ہزار تھی۔باقی لشکر ابھی بہت دور تھا۔ہراول کی رفتار تیز تھی۔دشمن کی موجودگی کی اطلاع پر خالدؓ نے رفتار سست کردی۔اس کا ایک مقصد یہ تو تھا کہ پورا لشکر آجائے،اور دوسرا یہ کہ دشمنکے قریب شام کو پہنچیں تاکہ رات کو آرام کیا جاسکے،اور علی الصباح لڑائی شروع کی جائے۔ اگر جاسوس آگے گئے ہوئے نہ ہوتے تو خالدؓ لاعلمی میں چار ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جا پہنچتے۔پھرصورتِ حال ان کے حق میں نہ رہتی۔رومیوں کے اس بارہ ہزار لشکر نے بڑی اچھی جگہ پڑاؤ ڈالاہوا تھا،وہاں ایک وادی تھی جس میں گھنے درخت تھے اور ایک پہاڑیتھی۔رومی اس پہاڑی کے سامنے اور وادی کے منہ میں تھے،انہوں نے لڑائی کیلئے یہ جگہ منتخب کی تھی جو ان کو کئی جنگی فائدے دے سکتی تھی۔مسلمان اس پھندے میں آسکتے تھے۔خالدؓ نے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ سورج غروب ہونے سےذرا پہلے دشمن کے سامنے پہنچے۔دشمن سے ان کا فاصلہ ایک میل کے لگ بھگ تھا۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک لیا اور وہیں پڑاؤ کرنے کو کہا۔سورج غروب ہو گیا اس لیے یہ خطرہ نہ رہا کہ دشمن حملہ کردے گا۔جمادی الثانی ۱۳ ہجری کے چاند کی اٹھارہویں تاریخ تھی۔آدھی رات کو چاندنی بڑی صاف تھی۔خالدؓپاپیادہ آگے چلے گئے۔رومیوں کے سوار گشتی سنتری گشت پر تھے۔خالدؓ ان سے بچتے پہاڑی تک گئے۔وہ زمین کے خدوخال کا جائزہ لے رہے تھے۔رات گزرتے ہی انہیں یہاں لڑنا تھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سوار دستے کیلئے بھاگنے دوڑنے کی جگہ ہے یا نہیں۔خالدؓکیلئےپریشانی یہ تھی کہ ان کا لشکر بہت دور تھا۔انہوں نے پیغام تو بھیج دیاتھا کہرفتار تیز کریں۔پھر بھی لشکر جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اس کی رفتار تو پہلے ہی تیز تھی۔مسلمانوں کا کوچ ہوتا ہی تیز تھا۔۱۹ اگست ۶۳۴ء (۱۹جمادی الثانی۱۳ ھ)کی صبح طلوع ہوئی۔فجر کی نمازسے فارغ ہوتے ہی خالدؓنے اپنے سوار دستے کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔رومی بھیتیاری میں آگئے۔خالدؓ نے رومیوں کی ترتیب دیکھی تو انہیں شک ہو اکہ رومی حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتے۔خالدؓ بھی پہل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔انہیں اتنا وقت درکار تھا کہ باقی لشکر پہنچ جائے۔خالدؓنے رومیوں کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے اپنے سوار دستے کے ایک حصے کو حملہ کرکے پیچھے یا دائیں بائیں نکل جانے کا حکم دیا،تقریباًایک ہزار گھوڑے سمندری طوفان کی موجوں کی طرح گئے ۔رومیوں نے حملہ روکنے کے بجائے یہ حرکت کی کہ پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمان سوار اس خیال سے آگے نہ گئے کہ دشمن گھیرے میں لے لے گا،ویسے بھی انہیں آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑنی تھی۔وہ جس رفتار سے گئے تھے اسی رفتار سے گھوڑے موڑتے ہوئے دور کا چکر کاٹ کر آگئے۔چند ایک سالار خالدؓکے ساتھ تھے۔سب کو توقع تھی کہ اب رومی حملے کیلئے آئیں گے۔ان کی فوج تین گنا تھی مگر انہوںنے کوئی جوابی حرکت نہیں کی۔’’خدا کی قسم!رومی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’یہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور میں اپنے لشکر کے انتظار میں ہوں۔‘‘’’ان کے ساتھ کھیلو ابنِ ولید!‘‘سالار ضراربن الازور نے کہا۔’’یہ لڑنا نہیں چاہتے۔ہماراراستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارا لشکر ابھی دور ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ بھی سوچ ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’کیا یہ چوکسنہیں کہ ہمارا لشکر شاید کسی اور طرف سے ان پر حملہ کر دے گا؟‘‘’’میں ان کا دھیان پھیر دیتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔رومیوںکی توجہ اپنی طرف کرنے کیلئے خالدؓ نےیہ طریقہ اختیار کیا کہ دشمن کو انفرادی مقابلوں کیلئے للکارا۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دور میں جب فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی سامنے آتا اور ان میں انفرادی لڑائی ہوتی تھی۔خالدؓنے ضرار بن الازور، شرجیلؓ بن حسنہ اور امیرالمومنین ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کو مقابلے کیلئے آگے کیا۔یہ تینوں سالار تھے۔وہ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر گھوڑے دوڑانے اور دشمن کو للکارنے لگے۔رومیوں کی صفوں سے تین سوار نکلے۔وہ بھی سالاری کے رتبے کے آدمی تھے۔رومی جنگجو قوم تھی۔اس قوم نے تاریخ ساز تیغ زن اور شہسوار پیدا کیے ہیں۔خالدؓ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں جو رومی نکلے وہ زبردست لڑاکےتھے۔کھلے میدان میں مقابلے شروع ہو گئے۔یہ تین جوڑیوں کامقابلہ تھا۔تینوں جوڑ الگ ہو گئے۔گھوڑے دوڑ رہے تھے گھوم رہے تھے،اور برچھیوں سے برچھیاں ٹکرا رہی تھیں۔دونوں فوجوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔گھوڑے اپنی اُڑائی ہوئی گرد میں چھپتے جا رہے تھے ۔پھر گرد سے ایک گھوڑا نکلا۔اس کا سوارایک طرف لڑھک گیا تھا۔گھوڑا بے لگام ہو کر اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔وہ ایک رومی سالار تھا جو بڑا گہرا زخم کھا کر گھوڑے سے گر رہا تھا۔رومیوں کی صفوں سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا نکلا اور گرتے ہوئے سوار کے پیچھے گیا۔اس نے گھوڑے کے سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر کردیا لیکن وہ مر چکا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور رومی سوار گرا پھر تیسرا بھی گر پڑا،تینوں رومی مارے گئے۔ضرار بن الازور کا انداز وہی تھا کہ مقابلے میں اترتے ہی انہوں نے خود، زِرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔مقابلہ ختم ہوا تو تین رومیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے دور دور پڑی تھیں۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن رومیون کی اگلی صف کے قریب جا کر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے۔ ’’رومیو!یہ لاشیں اٹھاؤ۔آگے آؤ بزدلو!‘‘’’ہے کوئی اور موت کا طلبگار!‘‘’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں۔‘‘’’رومیو!یہ زمین تم پر تنگ ہو گئی ہے۔‘‘ادھر مجاہدینِ اسلام نے وہ شوروغل بپا کر رکھا تھا کہ آسمان ہلنے لگتا تھا۔ایک اور آدمیگھوڑا دوڑاتا میدان میں آیااور اس نے تلوار لہرا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس کی طرف گئے تو ضرار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چلّائے۔’’پیچھے رہ ابی بکر کے بیٹے!اسے میرے لیے چھوڑ دے۔‘‘وہ عبدالرحمٰن کے قریب سے گزر گئے۔رومی نے گھوڑا ان کی طرف موڑا لیکن ضرار نے اس کے گھوڑے کو پوری طرح سے مڑنے بھی نہیں دیا،انہوں نے تلوار کی نوک رومی کے پہلو میں اتاردی۔لیکن اتنی نہیں کہ وہ گر پڑتا۔ضرا ر نے اسے مقابلے کا موقع دیاتھا۔اس نے مقابلہ کیا لیکن اس کا دم خم پہلے زخم سے ہی ختم ہو چکا تھا۔ضرار اس کے ساتھکھیلتے رہے آخر ایسا بھرپوروار کیا کہ وہ گھوڑے پر دُہرا ہوا اور پھر لڑھک کے نیچے آپڑا۔مدینہ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں چند اور رومی آئے اور مارے گئے۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ رومیوں کی اگلی صف کے قریب جاکر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے تھے بلکہ کوئی رومیصف سے آگے ہوکر ان کی طنزیہ للکار کا جواب دیتا تو وہ ان تینوں میں سے جس کے سامنے ہوتا اسے برچھی یا تلوار سے ختم کر دیتا۔اس طرح انہوں نے چند ایک رومیوں کو بھی زخمی کیا اور قتل بھی۔خالدؓ پہلےتو تماشہ دیکھتے رہے پھر وہ جوش میںآگئے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے۔’’پیچھے آجاؤ تم تینوں!‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہااور میدان میں گھوڑا دوڑانے لگے۔ان کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔مؤرخوں نے ان کی للکار کے الفاظ لکھے ہیں۔’’میں اسلام کا ستون ہوں۔‘‘’’میں اﷲکے رسولﷺ کا صحابی ہوں۔‘‘’’میں خالد بن ولید ہوں۔‘‘’’میں اپنی فوج کاسپہ سالار ہوں۔میرے مقابلے میں سپہ سالار آئے۔‘‘واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رومی سالاروں عزازیر اور کلوس کے درمیان چپقلش تھی۔جب خالدؓنے کہا کہ ان کے مقابلے میں سپہ سالار آئے تو رومی سالار عزازیر نے اپنے ساتھی سالار کلوس کی طرف دیکھا اور کہا کہ کلوس اپنے آپ کو سپہ سالار سمجھتاہے،میں تو اس کے مقابلے میں کچھبھی نہیں،کلوس یہ سن کر خاموش رہا اور مقابلے کیلئے آگے بھی نہ بڑھا۔’’ہمارا سالار کلوس ڈر گیا ہے۔‘‘عزازیر نے طنزیہ کہا۔اس نے کلوس کو کچھ اور طعنے بھی دیئے۔کلوس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓکے مقابلے میں ہچکچا رہا ہے۔لیکن عزازیر اس پر طعنوں کے تیر چلا رہاتھا۔ان سے تنگ آکر کلوس نے گھوڑا بڑھایا اور خالدؓکی طرف گیا۔ چار مؤرخوں نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ خالدؓ کے ہاتھ میں برچھی تھی۔کلوس ان کی طرفآیا تو اس کا انداز حملے والا نہیں تھا اور اسنے خالدؓ کو کچھ ایسا اشارہ کیا تھا جیسےکوئی بات کرنا چاہتا ہو۔خالدؓ نے اس کے اشارے کی پرواہ نہیں کی، دشمن کا دوستانہ اشارہ دھوکا بھی ہو سکتا تھا۔ خالدؓنے اپنا گھوڑا اس کی طرف دوڑایا اور اس پر برچھی کا وار کیا۔کلوس تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے اپنے آپ کو اس وار سے صاف بچا لیا۔خالدؓ نے آگے جا کر گھوڑا موڑا اور کلوس پر دوسرے حملے کیلئے گئے۔اب کہ انہوں نے سنبھل کر کلوس کو برچھی ماری۔کلوس نے اب پھر ان کا وار بیکار کر دیا۔خالدؓنے برچھی پھینک دی۔کلوس نے دیکھا کہ اب خالدؓ خالی ہاتھ آرہے ہیں۔تو اس نے تلوار تانی۔خالدؓ نے گھوڑ اس کی طرف لیا اور گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا،اسے فوراً روک کر موڑا اور کلوس پرآئے۔کلوس نے گھوڑا موڑا وہ بہتر پوزیشن میں آکروار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن خالدؓنے پیچھے سے آکر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑے سے گرا دیا۔انہوں نے گھوڑے سے کود کر کلوس کو دبوچ لیاکلوس زمین پر پڑا تھا۔اس نے اٹھنے کی ذرا سی بھیکوشش نہ کی۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کو پکارا کہ آئیں ۔دو تین محافظ دوڑے گئے۔خالدؓنے انہیں کہا کہ کلوس کو قیدی بنا لیں۔اس طرح کلوس مرنے سے بچ گیا اور قیدی بن گیا۔جب کلوس کو قیدی بنا کر خالدؓکے محافظ لے گئے تواسے پیچھے لے جانے کے بجائے سامنے کھڑاکر دیا گیا۔تاکہ رومی اسے دیکھتے رہیں۔خالدؓ پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے،اور گھوڑا چکر میں دوڑاتے اور رومیوں کو للکارتے تھے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔کلوس کا گھوڑا ایک جگہ رُک گیا تھا ۔خالدؓکے اشارے پر ان کا ایک محافظ کلوس کا گھوڑا پکڑ لایا۔خالدؓ کیللکار کے جواب میں اب رومی سالار عزازیر سامنے آیا۔’’او کلوس!‘‘سالار عزازیر نے خالدؓکو للکارنے کے بجائے اپنے ساتھی سالار کلوس کو للکار کر طعنہ دیا۔’’دیکھ لےاپنا انجام بزدل کمینے!تو مجھے رسوا کر رہاتھا۔اب میری تلوار کا کمال دیکھ۔‘‘اس نے خالدؓ پر حملہ کرنے کے بجائے گھوڑا عام چال سے خالدؓ کی طرف بڑھایا،اور خالدؓ سے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’عربی بھائی!میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔میرے قریب آجا۔‘‘’’او اﷲکے دشمن!‘‘خالدؓ نے اس کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے قریب گیا تو تیرا سرتیرے جسم کے ساتھ نہیں رہے گا۔تو ہی آجا۔‘‘عزازیر نے تلوار نکالی اور خالدؓ کی طرف آیالیکن وہ ہنس رہا تھا جیسے خالدؓ کو کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔وہ خالدؓ سے کچھ دور رک گیا۔’’عربی بھائی!‘‘اس نے کہا۔’’تجھے میرے مقابلے میں آنے کیلئے کس نے کہا ہے؟کیا تو نے سوچا نہیں کہ تو میرے ہاتھوں مارا جائے گا تو تیرے ساتھی سالار تیرے بغیر کیاکریں گے-’’اﷲسے دشمنی رکھنے والے رومی!‘‘خالدؓنے کہا۔’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میرے ساتھیوں نے کیا کردکھایا ہے؟انہیں اگر میری اجازت ہوتی تو یہ تیرے اس سارے لشکر کو اسی طرح کاٹ دیتے جس طرح تیرے یہ ساتھی کٹے ہوئے مردہ پڑے ہیں۔میرے ساتھی آخرت سے محبت کرتے ہیں۔یہ دنیا اور یہ زندگی تو ان کیلئے کچھ بھی نہیں……تو ہے کون؟میں تجھے نہیں جانتا۔‘‘’’او بد قسمت عربی!‘‘عزازیر نے خالدؓ کا مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔’’میں اس ملک کا جابر سالار ہوں میں تیرے لیے قہر ہوں۔میں فارسیوں کے لشکر کا قاتل ہوں۔ترکوں کے لشکر کو برباد کرنے والا ہوں۔‘‘’’میں تیرا نام پوچھ رہا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں موت کا فرشتہ ہوں۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’میرا نام عزازیر ہے لیکن میں عزرائیل ہوں۔‘‘’’خد اکی قسم !جس موت کا تو فرشتہ ہے وہ موت تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تجھے جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں پہنچائے گی۔‘‘عزازیر کو خالدؓکے اس طنز پر بھڑک اٹھنا چاہیے تھا۔لیکن اس نے اپنے آپ کو ٹھنڈارکھا۔’’میرے عربی بھائی!‘‘اس نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کلوس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے جو تیری قید میں ہے؟‘‘’’وہ دیکھ رومی سالار!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’تیرا سالار بندھا ہوا ہے۔‘‘عزازیر کا رویہ اور لہجہ اور زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔’’کیا وجہ ہے کہ تونے ابھی تک اسے قتل نہیں کیا؟‘‘عزازیر نے کہا۔’’تو نہیں جانتا کہ رومیوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ عیار اور شیطان ہے تو وہ کلوس ہے……تو اسے قتل کیوں نہیں کرتا؟‘‘’’کوئی وجہ نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’صرف یہ ارادہ ہے کہ تم دونوں کو اکٹھا قتل کروں گا۔‘‘ان دونوں رومی سالاروںکی آپس میں دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ خالدؓ کی کسی بات پر بھڑکتا ہی نہیں تھا۔’’میری ایک بات پر کان دھر عربی سالار!‘‘عزازیر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔’’اگر تو کلوس کومیرے سامنے قتل کردے تو میں تجھے ایک ہزار دینار، دس قبائیں ریشم کی اور اعلیٰ نسل کے پانچ گھوڑے دوں گا۔‘‘’’او روم کے جابر سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ سب تو مجھے کلوس کو قتل کرنے کا انعام دے رہا ہے ، یہ بتا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کیلئے تو مجھے کیا دے گا؟اپنی جان کی قیمت بتا دے؟‘‘’’تو ہی بتا۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا لے گا؟‘‘’’جزیہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر نہیں تو اسلام قبول کرلے۔‘‘اب عزازیر بھڑکا۔’’آعرب ےبدو!‘‘عزازیر نے کہا۔’’اب میرا وار دیکھ۔ہم عظمت کی طرف جاتے ہیں۔تو ذلت میں جاتا ہے۔آ، اپنے آپ کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا۔‘‘ اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور خالدؓپر حملہ کرنے کیلئے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔خالدؓ اس سے تیز نکلے۔انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔عزازیر ان کے قریب ہی تھا۔خالدؓ نے تلوار کا وار کیا جو عزازیر نے پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر بے کار کر دیا۔اس کے بعد خالدؓ نے ہر طرف سے آکر اس رومی سالار پر وار کیے مگر وہ بڑی پھرتی سے اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتا رہا۔اس نے بعض وار اپنی تلوار پر روکے۔مؤرخ واقدی نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے خالدؓ اور عزازیر کے مقابلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔عزازیر وارروکتا تھا اور وار کرتا نہیں تھا۔رومی لشکر سے تو دادوتحسین کا شور اٹھ ہی رہا تھا ۔مسلمانوں نے بھی عزازیر کی پھرتی کی داددی۔خالدؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔’’اے عرب کے سالار!‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا میں تجھے قتل نہیں کر سکتا؟……میں تجھے زندہ پکڑوں گا اور تجھ سے یہ شرط منواؤں گا کہ تو جدھر سے آیا ہے ،اپنےلشکر کے ساتھ اُدھر ہی چلاجائے۔‘‘’’خداکیقسم!اب تو میرے ہاتھوں زندہ گرفتارہوگا۔‘‘خالدؓ نے بھڑک کر کہا اور اس پر جھپٹے۔عزازیر نے گھوڑے کو تیزی سے موڑااور بھاگ نکلا۔خالدؓ نے گھوڑا س کے پیچھے ڈال دیا۔عزازیرنے گھوڑا تیز کر دیااور دونوں فوجوں کے درمیان چکر میں گھوڑا دوڑانے لگا۔اب مسلمانوں کالشکر نعرے لگانے لگا۔خالدؓ اس کے تعاقب میں رہے۔عزازیر اپنا گھوڑا ذرا آہستہ کرلیتا اور جب خالدؓ اس تک پہنچتے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔اس دوڑ اور تعاقب میں بہت سا وقت گزر گیا۔خالدؓ کا گھوڑا سست پڑنے لگا اور اس کا پسینہ پھوٹ آیا۔عزازیر کا گھوڑا خالدؓ کے گھوڑے سے بہتر اور زیادہ طاقتور تھا،عزازیر نے دیکھ لیا کہ خالدؓ کا گھوڑا رہ گیا ہے اس نے اپنا گھوڑا گھمایا اور خالدؓ کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔’’او عربی!‘‘عزازیر نے للکار کر کہا۔’’تو سمجھتا ہے میں تیرے ڈر سے بھاگ اٹھا ہوں۔میں تجھے کچھ دیر اور زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔میں تیری روح نکالنے والا فرشتہ ہوں۔‘‘خالدؓنے دیکھا کہ ان کا گھوڑا عزازیر کے گھوڑے کاساتھ نہیں دے سکتا تو وہ اپنے گھوڑے سے کودکر اُترے۔ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔عزازیر نے خالدؓکو آسان شکار سمجھا،اور ان پر گھوڑا دوڑا دیا۔خالدؓ کھڑے رہے۔عزازیر قریب آیا تو اس نے گھوڑے سے جھک کر خالدؓ پر وار کیا۔خالدؓ بچتے نظر نہیں آتے تھے،لیکن انہوں نے سر نیچے کرکے وار کو بیکارکر دیا۔عزازیر گھوڑے کو گھما کر آیا۔خالدؓ پہلے کی طرح کھڑے رہے۔ابکے پھر عزازیر نے اُن پر وار کیا،خالدؓ نے نہ صرف یہ کہ جھک کر اپنے آپ کو بچا لیا،بلکہ دشمن کے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسی تلوار ماری کہ گھوڑے کی ایک ٹانگ کٹ گئی،اور دوسری گھوڑے کے بوجھ کے نیچے دوہری ہو گئی۔گھوڑا گرااور عزازیر گھوڑے کے آگے جا پڑا۔وہ بڑی تیزی سے اٹھا لیکن خالدؓنے اسے پوری طرح اٹھنے نہ دیا۔تلوار پھینک کر اسے دبوچ لیا اور اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔اسے پھر اٹھایا اور پہلے سے زیادہ زور سے پٹخا۔عزازیر کو اس خوف نے بے جان کر دیا کہ خالدؓ اسے مار ڈالیں گے لیکن خالدؓ نے اسے گھسیٹا اور اسی طرح اپنے لشکر کی طرف لے گئے اور کلوس کے پا س جا کھڑا کیا۔’’یہ لے!‘‘خالدؓنے اسے کہا۔’’اپنے دوست کلوس سے مل۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا کہ عزازیر کو بھی باندھ دیا جائے۔ ادھر اﷲنے دشمن کے دو سپہ سالار مسلمانوں کو دے دیئے اُدھر شور اٹھا کہ باقی لشکر آگیا ہے۔خالدؓ اپنے اسی لشکر کے انتظار میں تھے اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لشکر کے ساتھ تاریخ اسلام کے دو عظیم سالار تھے۔عمروؓ بن العاص اور ابو عبیدھؓ۔ خالدؓ نے ذرا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کیا۔چار ہزار جانباز سواروں کے دستے طلیعہ کو اپنی کمان میں رکھا اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے برابر تھیبلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔رومیوں نے مقابلہ تو کیا لیکن ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی، وہ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ان کا حوصلہ اور جذبہ تو اسی ایک وجہ سے ٹوٹ گیا تھاکہ ان کے دو سپہ سالار مسلمانوں کی قید میں تھے،اور باقی سالار انفرادی مقابلوں میں مارے جاچکے تھے۔اس رومی فوج میں پہلی جنگوں سے بھاگے ہوئےآدمی بھی تھے۔ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو قہراورغضب سے لڑتے اور اپنے ساتھیوں کو کٹتے دیکھا تھا۔انہوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا اور پیچھے ہٹتے گئے۔انہیں لڑانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔مسلمانوں نے انہیںپسپائی سے روکنے کیلئے ان کے عقب میںجانے کی کوشش کی لیکن پیچھے درختوں سے اٹی ہوئی وادی تھی جس میں وہ غائب ہوتے جا رہے تھے۔ان کی پیٹھ کے پیچھے دمشق تھا جو قلعہ بند شہرتھا۔فاصلہ بارہ میل تھا۔یہ رومیوں کیلئے ایک کشش تھی۔پناہ قریب ہی تھی۔چنانچہ وہ فرداً فرداً درختوں کے جھنڈ میں سے گزرتے دمشق کی طرف بھاگ رہے تھے۔رومی ایسی بری طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے تھے کہ میدانِ جنگ ان کی لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے اَٹ گیا۔دوڑتے گھوڑے اور پیادے انہیں کچل رہے تھے۔رومیوں نے اپنے پہلوؤں کے دستوں کو عام پسپائی کیلئے کہہ دیا۔مسلمانوں نے تعاقب نہ کیا کیونکہخالدؓ اپنی نفری کو بچانا چاہتے تھے۔وہ بڑے کوچ کے تھکے ہوئے بھی تھے۔بچے کچھے رومی دمشق پہنچ گئے اور شہر کے اردگرد دیوار نے انہیں پناہمیں لے لیا۔مسلمانوں نے مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔عورتوں نے زخمیوں کو اٹھایااور انہیں مرہم پٹی کیلئے پیچھے لے گئیں۔شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور انہیں الگ الگ قبروں میںدفن کیا گیا۔خالدؓ نے رات وہیں گزارنے کا حکم دیااور تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں بتایا کہ دمشق کے محاصرے کو کامیاب کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ دمشق کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی جائے تاکہ دشمن اپنے دمشق کے دستوں کو کمک اور رسد نہ پہنچاسکے۔خالدؓ نے فحل کے قلعے کے قریب پہلے ہی ایک گھوڑ سوار دستہ چھوڑ دیا تھا۔وہاں سے امداد آنے کی توقع تھی۔خالدؓ نے دو گھوڑ سوار دستے دو مقامات پر بھیج دیئے۔ان کیلئے حکم تھا کہ ان راستوں سے کمک آئے تو اس پر حملہ کردیں۔۲۰ اگست ۶۳۴ء (۲۰ جمادی الآخر ۱۳ھ)خالدؓ نے دمشق پہنچ کر اس شہر کو محاصرے میں لے لیا۔دمشق کے اندر جو رومی فوج تھی اس کی تعداد سولہ ہزار کے لگ بھگ تھی،خالدؓ کے لشکر میں بیس ہزار مجاہدین تھے۔شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے تعداد اتنی کم رہ گئی تھی۔ کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہتھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اوراگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment