کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازےتھے اور ہر دروازے کانام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اسکی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیںدیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کیگردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومیفوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جارہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا۔ مسلمانوں کیلئے بھی شام میں فاتحانہ داخلہ اور دمشق کا محاصرہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ایک تو نفری دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی جو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے کم سے کم ہوتی چلیجا رہی تھی ، دوسرے اپنے وطن سے دوری۔ پسپائی کی صورت میں ان کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں مل سکتا تھا۔مختلف ادوار کے جنگی مبصروں اور وقائع نگاروں نے لکھاہے کہ خالدؓ کے لشکر نے جس کی نفری ہمیشہ خطرناک حد تک کم رہی ہے۔تاریخ نویسوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اگر جنگی مہارت اورقیادت کی بات کی جائے تو سرِ فہرستدو فوجیں آتی ہیں۔ایک قیصرِ روم کی فوج دوسری کسریٰ کی فوج۔یہ دونوں فوجیں عسکری اہلیت اور قیادت کی وجہ سے مشہورتھیں۔بیشک خالدؓکی جنگی قیادت ، تیز رفتار نقل و حرکت اور میدانِ جنگ میں چالوں کامقابلہ کم ہی سالار کر سکتے تھے لیکن عقیدے کی سچائی اور جذبے کی شدت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گھروں اور اہلِ وعیال سے اتنی لمبی جدائی سپاہیوں کے جذبے کو کمزور کر دیا کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی فوج میں ایسی کمزوری دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔اس کیفیت کومبصروں نے عقیدے اورجذبے کا کرشمہ کہا ہے۔’’میرے عزیر رفیقو!‘‘خالدؓنےاپنے سالاروں سے دمشق کے مضافات میں کہیں کہا۔’’سوچو ہم کہاں تھے اورد یکھو ہم کہاں ہیں۔کیا اب بھی کفار اﷲکو وحدہ لا شریک نہیں مانیں گے اور کیا وہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اﷲنے ہمارے قبیلے کو رسالت عطاکی ہے جو برحق ہے اور کوئی دلیل اسے جھٹلا نہیں سکتی؟……اور تم اﷲکا شکر ادا نہیں کرو گے جس نے تمہیں اتنے طاقتور دشمن پر فتح دی ہے ؟کوئی شمار نہیں اس کی رحمتوں کا لیکن ان کیلئے جو اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔‘‘’’بیشک، بیشک!‘‘کئی آوازیں سنائی دیں۔’’اور اے برہنہ جنگجو!‘‘خالدؓنےضرار بن الازور سے جو خود، زرہ اور قمیض اتارکر لڑا کرتے تھے ، کہا۔’’خدا کی قسم!تو اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو ایک دن تو ہی نہیں ہم سب افسوس کر رہے ہوں گے۔‘‘ ’’ولید کے بیٹے!‘‘ضرار نے کہا۔’’دینِ اسلام کے دشمن کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا لیکن اس میں کوتاہینہیں کروں گا کہ تیرے ہر حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے۔‘‘ ضرار بن الازور کے بولنے کا انداز اتنا شگفتہ تھا کہ سبہنس پڑے۔خالدؓ کے ہونٹوں پر جانفزا مسکراہٹ آ گئی۔انطاکیہ کی فضاء ہنسی اورمسکراہٹوں سے محروم ہو گئی تھی۔اس شہر کو رومی شہنشاہ ہرقل نے اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔اسے جنگ کی جو خبریں روزبروز مل رہی تھیں ان سے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت ویسی ہی ہو گئی تھی جومدائن میں شہنشاہ اُردشیر کی ہوئی تھی،اور صرف شکست کی خبریں سن سن کروہ صدمے سے مر گیا تھا۔مرج الصفر میں رومیوں کو جو شکست ہوئی تھی اس نے تو ہرقل کو باؤلا کر دیاتھا۔پھر اسے اپنے سالاروں کے مارے جانے کی اطلاعیں ملنے لگیں۔’’عزازیر زندہ ہے۔‘‘ہرقل نے بڑے جوش سے کہا۔’’کلوس ہے……یہ دونوں عرب کے ان بدوؤں کو دمشق تک نہیں پہنچنے دیں گے۔‘‘’’شہنشاہِ معظم!‘‘محاذسے آئے ہوئے قاصد نے کہا۔’’وہ دونوں زندہ نہیں۔‘‘’’کیا تم مجھ سے یہ جھوٹ منوانا چاہتے ہو؟‘‘ہرقل نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’کیا تم جھوٹ کی سزا سے واقف نہیں؟‘‘’’سب کچھ جانتے ہوئے یہ خبر سنا رہا ہوں شہنشاہِ معظم!‘‘ قاصد نے کہا۔’’ان دونوں کو مسلمانوں نے زندہ پکڑ لیاتھا اور دونوں کو انہوں نے دمشق کی شہرِپناہ کے قریب لاکر قتل کر دیا ہے۔‘‘’’اور میری بیٹی کے خاوند کی کیا خبر ہے؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے اپنے داماد سالار توما کے بارے میں قاصد سے پوچھا۔’’سالار توما دمشق کے اندر ہیں۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’اور محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘’’دمشق کا محاصرہ ہم توڑیں گے۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔ہرقل نے انطاکیہمیں اسی لیے ڈیرے ڈالے تھے کہ فوج تیار کرکے جہاں بھی کمک کی ضرورت ہو گی وہاں فوج بھیجے گا۔اس نے پہلے ہی لوگوں کو فوج بھی بھرتی ہونے کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔گرجوں میں پادری صرف اس موضوع پر وعظ کرتے تھے کہ لوگوں کا فوج میں بھرتی ہونا کتناضروری ہے۔وہ کہتے تھے کہ عیسائیت کاخاتمہ ہو جائے گا۔اور وہ اسلام سےلوگوں کو خوفزد کرتے تھے۔خالدؓ جب دمشق کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ہرقل نے اعلان کیاتھا کہ جو فوج تیار ہو ئی ہے وہ اس کے معائنے اور احکام کیلئے اسے دکھائی جائے۔یہ فوج اس کے سامنے لائی گئی تو اس نے ایسے جوشیلے اور جذباتی انداز سے فوج سے خطاب کیا کہ سپاہی آگ بگولا ہو گئے۔’’تمہیں کوئی شہنشاہ حکم نہیں دے رہا۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔’’یہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے کہ اس کے دشمنوں کو تباہ کر دو۔صلیب کی آن پر مر مٹو۔میں آج شہنشاہ نہیں ، تم جیسا ایک سپاہی ہوں۔‘‘ ۹ستمبر ۶۳۴ء (۱۰ رجب ۱۳ ھ) کا دن تھا۔دمشق کے محاصرے کا گیارہواں دن تھا محاصرے کے دس روز یہ سرگرمی رہی کہ دمشق کے کسی نہ کسی دروازے سے رومیوں کے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن زیادہ آگے نہ آتے۔مختصر سی جھڑپ لے کرقلعے میں واپس جانے کی کرتے۔خالدؓنے ابھی قلعے پر کسی بھی قسم کا ہلہ نہیں بولا تھا۔خالدؓ نے دیکھ بھال کیلئے ہر طرف جاسوس بھیج رکھے تھے۔محاصرے کے گیارہویں روز ایک جاسوس اس حالت میں خالدؓ کے پاس آیا کہ اس کا گھوڑا پسینے میں نہایا ہوا تھا اور جب گھوڑا رکا تو کانپ رہا تھا۔سوار کی اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی،اس سے اچھی طرح بولابھی نہیں جاتا تھا،خالدؓنے پہلے تو اسے پانی پلایا پھر پوچھا کہ وہ کیا خبرلایا ہے۔’’رومیوں کی ایک فوج آرہی ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس ہزار سے زیادہ ہوگی ،کم نہیں۔‘‘’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’حمص سے آگے نکل آئی ہے۔‘‘جاسوس نے جواب دیااور ایک جگہ کا نام لے کر کہا۔’’ہمارا اک دستہ وہاں موجود ہے۔رومی فوج کل کسی بھی وقت وہاں تک پہنچ جائے گی۔ہمارے دستے کی نفری اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔اسی لیے میں کہیں ایک ثانیہ بھی نہیں رُکا۔ہمارا دستہ مارا جائے گا اور رومی دمشق تک آجائیں گے۔‘‘خالدؓنے جاسوس کورخصت کردیا۔ان کیلئے یہ خبر حیران کن بھی نہیں تھی، پریشان کن بھی نہیں تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ہرقل انطاکیہ میں ہے اور وہاں وہ آرام اور سکون سےنہیں بیٹھا ہوا بلکہ وہ دمشق کو بچانے کے انتظامات کر رہا ہے۔یہ رومی فوج جس کی اطلاع ایک جاسوس لایا تھا، انطاکیہ سے شہنشاہِ ہرقل نے اپنی دمشق والی فوج کیلئے کمک کے طور پربھیجی تھی۔مؤرخوں نے اس کی تعداد بارہ ہزار لکھی ہے۔خالدؓنے اسی توقع پر کہ رومیوں کی کمک آئے گی، دمشق کی طرفآنے والے راستوں پر پہلے سے ہی تھوڑی تھوڑی نفری کا ایک ایک دستہ بھیج دیا تھا۔ان کے سپرد یہ کام تھا کہ کمک کو روکے رکھیں مگر یہ جو فوج آرہی تھی اس کی نفری بہت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اسی وقت سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ دشمن کی زیادہ نفری آرہیہے اور اسے روکنے کیلئے اپنی نفری بہت تھوڑی ہے۔ ’’رومیوں کی اس کمک کو روکنا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنی نفری جو اس کے راستے میں موجود ہے اسے جانینقصان سے بچانا ہے۔ہمیں محاصرے کو ذرا کمزور کرنا پڑا گا۔‘‘’’اس کمی کو ہم اپنے جذبے سے پورا کرلیں گے۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ابنِولید!تو جتنی نفری کافی سمجھتاہے ، یہاں سے نکال کے بھیج دے۔‘‘’’پانچ ہزار سوار کافی ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’رومیوں کی نفری دس ہزار سے زیادہ ہے۔‘‘’’بہت ہے۔‘‘ضرار بن الازورنے کہا۔’’اور مجھے یقین ہے ابنِ ولید! تو مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ان پانچ ہزار سواروں کا سالار میں ہوں گا۔‘‘’’تیری خواہش کو میں رد نہیں کروں گاابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’لیکن احتیاط کرنا کہ جوش میں آکر دشمن کی صفوں میں نہ گھس جانا، اگر ایسا ضروری ہو جائے تو تجھے پیچھے نہیں رہنا چاہیے……اور یہبھی سن لے ابن الازور!اگر تو نے دیکھا کہ تو دشمن کو سنبھال نہیں سکے گا تو فوراً کمک مانگ لینا میں بھیج دوں گا۔وہاں پہلے سے جو اپنا دستہ موجود ہے ، اسے بھی اپنی کمان میں لے لینا،یہ ساری نفری تیرے ماتحت ہوگی۔اپنا نائب خود ہی چن لے۔‘‘’’رافع بن عمیرہ!‘‘ضرار نے کہا۔’’لے جا اسے !‘‘خا لدؓنے کہا۔’’اور اتنی جلدی وہاں پہنچ جیسے تو اڑتا ہوا گیا ہو۔‘‘ضرار بن الازور کو درہ عقاب (ثنیۃ العقاب) کے قریب پہاڑی علاقے میں پانچ ہزار سواروں کے ساتھپہنچناتھا۔وہ جگہ دمشق سے کم و بیش بیس میل دور تھی،ضرار تو جیسے اڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں جو نفری موجود تھی اسے بھی اپنی کمان میں لے لیا۔یہ علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سےگھات کیلئے موزوں تھا،رومی فوج ابھی تک وہاں نہیں پہنچی تھی۔ضرار نے بڑی تیزی سے اپنی تمام نفری کو گھات میں چھپا دیا۔اس کے ساتھ ہی اس روز کا سورج غروب ہو گیا۔ضرار نے سنتری اس ہدایت کے ساتھ مقرر کیے کہ وہ ٹیکریوں اور چٹانوں کے اوپر چلے جائیں ، باہر نہ جائیں،پوری احتیاط کی جا رہی تھی کہ دشمن کو گھات کا پتہ نہ چلے۔رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی اور اس سے تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی فوج آگئی،اور یہ صحیح معنوں میں فوج تھی۔نفری زیادہ، تنظیم نہایت اچھی۔دیکھا گیا کہ اس فوج کے ساتھ بیشمار گھوڑا گاڑیاں تھیں جو سامان سے لدی ہوئی تھیں اور اونٹوں کی تعداد بھی بے حساب تھی۔جن پربوریاں لدی ہوئی تھیں۔یہ بعدمیں پتا چلا تھا کہ یہ سامان خوردونوش تھا جو دمشق جا رہا تھا۔خالدؓ دمشق کی اس صورتِ حال سے بے خبر تھے۔ رومیوں نے دمشق کا دفاع تو بڑا اچھا کیا تھا لیکن شہر میں رسد اور خوراک کی اتنی کمی تھی کہ دس دنوں کے محاصرے میں ہی شہری ہر چیز کی قلت محسوس کرنے لگے تھے۔ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی۔اس نے کمک بھیجیاور اس کے ساتھ خوراک کا ذخیرہ بھی بھیج دیا تھا۔ ضرار بن الازور کو بتایا گیا کہ رومی فوج کے ساتھ مال و اسباب بے حساب آرہا ہے تو ضرار نے جوش میں آکر حسبِ معمول زِرہ، خود، اور قمیض اتار پھینکی اور نیم برہنہ ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ بہت موٹا شکار آرہا ہے۔رومی جب پہاڑیوں میں آئے تو ضرار کی للکار پر مجاہدینِ اسلام گھات سے نکل کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔توقع یہ تھی کہ رومی اچانک حملے سے گھبرا کر اور بوکھلا کر بھاگ اٹھیں گے لیکن ان کا درِ عمل ایسا بالکل نہیں تھا۔انہوں نے یہ چال چلی کہ پیچھے ہٹنے لگے اور درہ عقاب کے قریب اس جگہ جا رُکے جو ہموار میدان تھا اور یہ پہاڑی کی بلندی تھی۔انہوں نے سامان کی گاڑیاں پیچھے بھیج دیں اور ان کے پیچھے کی فوج آگے آگئی۔ان کی تعداد مسلمانوں سے دگنیتھی اور ان کے انداز سے صاف پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ حملہ ان کیلئے غیر متوقع نہ تھا، وہ اس کیلئے تیار تھے ،انہوں نے قدم جما لیے۔ضرار بن الازور نے دشمن کو اس کیفیت میں دیکھا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حملہ روک لیا ہے بلکہ وہ سامنے سے بھی اور دائیں بائیں سے بھی حملے کر رہا ہے۔مسلمانوں کا جوش و خروش کچھ کم نہ تھا لیکن رومی جس منظم انداز سے لڑ رہے تھے اس سے یہی ایک خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بھگا کر اور کاٹ کر آگے نکل جائیں گے۔ضرار کو خالدؓ نے جس حرکت سے منع کیا تھا ،انہوں نے وہی حرکت کی۔پہلے تو وہ منظم انداز سے رومیوں پر حملے کراتے رہے لیکن دیکھا کہ رومی پیچھے ہٹنے کے بجائے چڑھے آرہے ہیں تو ضرار جوش میں آگئے اور چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔انہوں نے اپنی مخصوص جراتاور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو رومی ان کے سامنے آیا وہ کٹ گرا اور اس طرح وہ اندھا دھند بہت آگے نکل گئے۔’’یہ ہے برہنہ جنگجو!‘‘کسی رومی نے نعرہ لگایا۔یہ کوئی سالار ہو سکتا تھا۔اس نے للکار کر کہا۔’’گھیرے میں لے لو، اسے زندہ پکڑو۔ ضرار نیم برہنہ ہو کر لڑنے اور دشمن کو ہر میدان میں حیران کن نقصان پہنچانے میں اتنے مشہور ہو گئے تھے کہ انطاکیہ تک ان کی شجاعت کے چرچے پہنچ گئے تھے،رومیوں نے اس نیم برہنہ جنگجو کو پہچان لیا۔ضرار کے دائیں بازو میں ایک تیر لگ چکا تھا، مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ضرار کے جسم پردو زخم اور بھی تھے۔بہرحال ان کے بازو میں تیر اترنے پر سب متفق ہیں،ضرار نے تیر کھینچ کر بازو سے نکال پھینکا۔تیر نکالنا بڑا ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔وہاں سے گوشت باہر نکل آتا ہے لیکنضرار بن الازور عاشقِ رسولﷺ تھے۔وہ تو جیسے اپنے جسم اور اپنی جان سے دست بردار ہو گئے تھے۔یہ تیر اور تلواریں تو جیسے ان کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتی تھیں،رومیوں کا تیر کھا کر انہوں نے تیر یوں نکال پھینکا جیسے ایک کانٹا نکال پھینکا ہو۔ان کا دایاں ہاتھ تلوار کو مضبوطی سے تھامے رہا اور رومی کٹتے اور گرتے رہے۔رومی انہیں زندہ پکڑنے کا تہیہ کر چکے تھے۔انہوں نے ضرار کے آدمیوں کو جو ان کے ساتھ آگے نکل گئے تھے،بکھیر کر الگ الگ کر دیااور ضرار کو گھیرے میں لے لیااس موقع پر انہیں ایک یا دو زخم آئے۔آخر کئی رومیوں نے مل کر انہیں پکڑ لیا،اور انہیں باندھ دیا،رومی بلند آواز سے چلّانے لگے:’’مسلمانو!ت¬مہارا سالار ہمارا قیدی ہو گیا ہے۔‘‘’’ہم نے تمہارے ننگے سالار کو پکڑ لیا ہے۔‘‘’’ہم شہنشاہِ ہرقل کو تحفہ دیں گے۔‘‘رومیوں کی للکار بلند ہوتیجا رہی تھی،وہ ٹھیک کہتے تھے۔شہنشاہِ ہرقل کیلئے ضرار سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ اچھا نہیں ہو سکتا تھا،رومی انہیں باندھ کر پیچھے لے گئے۔ان کے زخموں سے خون بڑی تیزی سے بہا جا رہاتھا جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ہرقل تک زندہ نہیں پہنچ سکیں گے،رومیوں نے ان کی مرہم پٹی کردی۔اس دور کی جنگوں میں فوجیں یوں بھی شکست کھا جاتی تھیں کہسپہ سالار مارا گیا، پرچم گر پڑا، اور پوری کی پوری فوج بھاگ اٹھی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ضرار جیسا سالار پکڑا گیا تو دشمن کی للکار سن کر کہ اس نے ان کے سالار کو پکڑ لیا ہے، مسلمانوں نے حملوں کی شدت میں اضافہ کر دیا۔وہ لپکتے ہوئے شعلے اور کڑکتی ہوئی بجلیاں بن گئے۔رافع بن عمیرہ ضرار کے نائب سالار تھے، انہوں نے گرج کر اعلان کیا کہ اب کمان ان کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے سامنے سے رومیوں پر حملے بھی کرائے ۔خود بھی حملوں کی قیادت کی اوردشمن کی صفوں کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی۔لیکن رومیوں کی صفیں مل کر بڑی مضبوط دیوار بن گئی تھیں۔رافع ضرار کو رہا کرانے کی کوشش میں تھے۔لیکن ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔مسلمان اپنے سالار کو دشمن سے چھڑانے کیلئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ دوپہر سے ذرا بعد کا وقت تھا۔خالدؓ دمشق کے اردگرد گھوم پھرکر جائزہ لے رہے تھے کہ دیوار کہیں سے توڑی جا سکتی ہے یا نہیں۔دو سالار ان کے ساتھ تھے۔’’خدا کی قسم!دمشق ہمارا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی۔ضرار اور رافع ان کی کمک کو بھگا چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓ چپ ہو گئے۔ایک گھوڑ سوار ان کی طرف تیز آرہا تھا۔’’قاصد معلوم ہوتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگاکر اس کی طرف بڑھے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘گھوڑ سوار نے گھوڑا ان کے قریب روک کر کہا۔’’رومیوں نے ضرار بن الازور کو پکڑ لیا ہے ۔ابنِ عمیرہ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔انہوں نے ابن الازور کو رہا کرانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ابنِ عمیرہ نے مجھے اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ کمک کے بغیر ہم رومیوں کو نہیں روک سکیں گے۔‘‘’’کیا میں نے اسے منع نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنا؟‘‘خالد نے برہم سا ہو کر کہا۔’’رومی ہمارے اتنے قیمتی سالار کونہیں لے جا سکتے۔‘‘خالدؓنے تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں ضرار کی گرفتاری اور بیت لہیا میں رومیوں کے سامنے مسلمانوں کی کمزور حالت کے متعلق بتایا۔’’میں خود ابنِ عمیرہ کی مدد کیلئے جانا چاہتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن محاصرہ کمزور ہو جائے گا۔رومی باہر آکر تم پر حملہ کردیں گے،ہماری نفری پہلے ہی کم ہو کر رہ گئی ہے،اگر میں نہیں جاتا اور میں کمک نہیں بھیجتا تو ہمارے پانچ ہزار سوار مارےجائیں گے اور رومیوں کی کمک سیدھی یہاں آکر ہلہ بول دے گی۔بتا سکتے ہو مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’رافع کی مدد کو پہنچنااور رومیوں کی کمک کو روکنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید! تو سمجھتا ہے کہ تیرا جانا ضروری ہے تو ابھی چلا جا۔ہمیں اور دمشق کے محاصرے کو اﷲ پر چھوڑ۔رومیوں کو باہر آکر حملہ کرنے دے۔وہ زندہ اندر نہیں جا سکیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کرکے خالدؓ کو یقین دلایا کہ ان کینفری کم ہو بھی گئی تو بھی وہ محاصرے کو درہم برہم نہیں ہونے دیں گے۔’’اگر مجھے جانا ہی ہے تو میں فوراً نہیں جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں ایسے وقتیہاں سے سواروں کو لے کر نکلوں گا جب دشمن ہمیں نہیں دیکھ سکے گا……ابو عبیدہ!میری جگہ لے لے۔میں آدھی رات کے بعد چار ہزار سوار لے کر نکل جاؤں گا۔تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو،اﷲتمہارا حامیو ناصر ہو۔چار ہزار سواروں کو تیاری کی حالت میں الگ کردو اور انہیں بتا دو کہ آدھی رات کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘بیت لہیا کم و بیش بیس میل دور تھا۔سورج غروب ہونے تک وہاں رومیوں اور مسلمانوں میں لڑائی ہوتی رہی۔رافع بن عمیرہ نے شام تاریک ہونے کے بعد بھی مجاہدین کو رومیوں کے عقب میں پہاڑیوں کے درمیان سے گزار کر بھیجا مگر ہر ٹولی ناکام واپس آئی۔ ’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ضرار بن الازور موت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘رافع نے کئی بار کہا۔’’اﷲکرے وہ زندہ ہو، اﷲاسے زندہ رکھے۔ہم اسے چھڑا کر ضرور لائیں گے۔ رات گزر گئی،صبح کا اجالا ابھی پوری طرح نہیں نکھرا تھا کہ خالدؓچار ہزار سواروں کے ساتھ رافع کے پاس پہنچ گئے۔خالدؓآدھی رات گزر جانےکے بہت بعددمشق سے روانہہوئے تھے۔انہوں نے چار ہزار سواروں کو شام کے بعد خاموشی سے محاصرے سے ہٹا کر پیچھے کرنا شروع کر دیا تھااور سوار پیچھے جاکر اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔یہ جگہ دمشق سے ذرا دورتھی۔خالدؓ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو شہر میں محصوررومیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔خالدؓ اوران کے سوار دستے کو دیکھ کر رافع اور ان کے سواروں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔خالدؓ نے بڑی تیزی سے دشمن کا اوررافع کے سواروں کا جائزہ لیا، اور دونوں دستوں کو ضرورت کے مطابق ترتیب میں کرکے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک گھوڑ سوار مسلمانوں کی صفوں سے نکلا اور گھوڑا سر پٹ دوڑاتا خالدؓ سے بھی آگے نکل گیا۔اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں برچھی تھی۔خالدؓ کو اس پر غصہ آیا اور انہوں نے چلا کر اسے پکارا لیکن وہ رومیوں کی اگلی صف تک پہنچچکا تھا، جسم کے لحاظ سے وہ موٹا تازہ نہیں تھا۔اس کے سر پر سبز رنگ کا عمامہ تھا، اور اس نے اپنا چہرہ ایک کپڑا باندھ کر چھپایا ہوا تھا۔اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔’’یہ خالد ہے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’ایسی جرات خالد کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘رافع ایک پہلو پر تھے جہاں سے خالدؓ نظر نہیں آتے تھے۔خالدؓ نے حملہ روک لیا اور وہ رافع کے پاس گئے۔ رافع انہیں دیکھ کر حیران ہوئے۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ سے کہا۔’’اگر وہ تو نہیں جو رومیوں پر اکیلا ٹوٹ پڑا ہے تو وہ کون ہے؟‘‘’’میں یہی تجھ سے پوچھنے آیا ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں نے ابن الازور کو اسی حرکت سے روکا تھا۔‘‘’’وہ دیکھ ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’وہ جو کوئی بھی ہے ذرا دیکھ!‘‘وہ جو کوئی بھی تھا مسلمانوں کو بھی اور رومیوں کو بھی حیران کر رہا تھا۔جو رومی اس کے سامنے آتا تھا وہ اس کی برچھی یا تلوار کا شکار ہو جاتا تھا۔یہ سوار رُکتا نہیں تھا۔ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھمیں برچھی ہونے کے باجود اس نے گھوڑے کو اپنے قابومیں رکھا ہوا تھا۔ایک رومی کو گراکر وہ دور چلا جاتا کوئی اس کے تعاقب میں جاتا تو یہ سوار یکلخت گھوڑے کو روک کر یا گھماکر اپنے تعاقب میں آنے والے کوختم کردیتا۔خالدؓ بھی (مؤرخوں کے مطابق ) دم بخود ہو گئے تھے۔ایک بار وہ رومیوں کو گرا کر اس نے گھوڑا دور سے موڑا تو خالدؓکے قریب سے گزرا۔خالدؓ نے چلا کر اسے رکنے کو کہا لیکن سوار نہیں رکا۔دیکھنے والوں کو صرف اس کی آنکھیں نظر آئیں۔ان آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک تھی۔بلکہ ان آنکھوں میں دل کشی سی تھی۔اس کی تلوار اوراس کی برچھی کی انّی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔وہ ایک بار پھر رومیوں کی طرف جارہا تھا۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment