Visitors

قسط نمبر 51

داؤد میں اتنی سی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی اور بات کرتا۔وہ آداب بجا لاکر چل پڑا۔خیمے کے دروازے میں جاکر پیچھے دیکھا، خالدؓکی نظریں ابھی تک اسے گھور رہی تھیں۔داؤد نے منہ پھیر لیا لیکن چلا نہیں ، وہیں کھڑا رہا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ خالدؓ کی نظریں اس کی کھوپڑی میں سے گزر کر اس کی آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔وہ خالدؓکی طرف گھوما، اور اچانک اس طرح تیز قدم اٹھائے جیسے خالدؓ پر جھپٹنے لگا ہو۔’’ابنِ ولید!‘‘داؤد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’میں تجھے دھوکا دینے آیا تھا۔‘‘اس نے وردان کی سازش پوری کی پوری بیان کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کل صبح وردان کے دس آدمی کس جگہ گھات میں ہوں گے۔’ تفصیل سے پڑھئے ’کیا تو بتا سکتا ہے؟‘‘خالدؓ نے داؤد سے پوچھا۔’’کہ تو جاتے جاتے رک کیوں گیا اور تو نے یہ سچ کیوں بولا؟‘‘’’سچ کا صلہ لینے کیلئے۔‘‘داؤد نے کہا۔’’مجھے نقد انعام کی ضرورت نہیں۔جسفوج کے سالار کی نظریں انسانوں کے جسموں میں برچھی کی طرح اتر جانے والی ہوں اس فوج کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی……اے عربی سالار!میرا تجربہ اور میری عقل بتاتی ہے کہ فتح تیری ہوگی۔میں صرف اتنا صلہ مانگتا ہوں کہ جب تو ہماری بستیوں پر قبضہ کرلے تو میرے خاندان پر رحم کرنا، اور ان کی عزتکا ان کی جان و مال کا خیال رکھنا۔‘‘ اس نےبتایا کہ اس کا خاندان کون سی بستی میں رہتا ہے۔خالدؓ نے داؤد کو رخصت کر دیا۔داؤد نے واپس جاکر وردان کو بتایا کہ وہ خالدؓکو پیغام دے کر آگیا ہے اور خالدؓمقررہوقت پر اکیلے آئیں گے۔داؤد نے خالدؓ کی شخصیت سے ایسا تاثر لیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ رومی ہاریں گے اور فتح مسلمانوں کی ہوگی۔اس نے اپنی فوج کے سالارِ اعلیٰ سے جھوٹ بولاکہ خالدؓمقررہ وقت پر آجائیں گے۔صبح طلوع ہوئی۔ابو عبیدہؓ خالدؓکے پاس آئے۔خالدؓ نے انہیں رومی سالار وردان کی سازش بتائی۔ ’’وہ دس رومی مجھے قتل کرنے کیلئے گھات میں پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں چاہتا ہوں کہ اکیلا جاکر ان دس آدمیوں کو ختم کردوں۔بڑا اچھا شکار ہے۔‘‘’’نہیں ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’یہ تیرا کام نہیں۔دس آدمیوں کے مقابلے میں تو قتل یا زخمی ہو سکتا ہے۔تو بڑا قیمتی آدمی ہے۔ یوں کر، دس آدمی ایسےچن لے جو بہت ہی بہادر ہوں۔انہیں وہ جگہبتا کر بھیج دے۔‘‘خالدؓنے دس مجاہدین منتخب کیے اور انہیں بتایا کہ کہاں کہاں جانا اور کیا کرنا ہے۔ان میں ضرار بن الازور بھی تھے۔انہیں ان دس آدمیوں کا کماندارمقررکیا گیا۔ مشہور مؤرخ واقدی نے یہ واقعہ ذرا مختلف بیان کیا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ طےیہ پایا تھا کہ خالدؓ اور وردان کی ملاقات ہوگی۔وردان خالدؓکو دبوچ لے گا۔اور اس کی پکار پر اس کے دس رومی گھات سے نکل کر خالدؓ کو قتل کر دیں گے۔تین اور مؤرخوں نے بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے۔ وردان نے اپنے دس آدمی رات کے آخریپہر کی تاریکی میں گھات لگانے کیلئے بھیج دیئے تھے،خالدؓ نے اپنے دس آدمی اسی وقت کے لگ بھگ بھیج دیئے۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ گذشتہ روز کی ترتیب سے میدانِ جنگ میں کھڑے ہو جائیں اور حملے کیلئے تیار رہیں۔وردان نے مسلمانوں کو جنگی ترتیب میں آتے دیکھ کر جنگی ترتیب میں ہوجانے کا حکم دیااور صبح طلوع ہوتے ہی وہ شاہانہ جنگی لباس میں اس جگہ چلا گیا جہاں اس نے خالدؓ کو ملاقات کیلئے بلایا تھا۔اُدھر سے خالدؓ بھی آگئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔’’او عرب کے بدو!‘‘وردان نے خالدؓ سے کہا۔’’تو اور تیرےلوگ عرب میں بھوکے مرتے ہیں اور تُو قیصرِ روم کی شاہی فوج کے مقابلے میں آگیا ہے؟……او لٹیرے!کیا میں نہیں جانتا کہ تم لوگ وہاں مفلسی کی بد ترین زندگی گزارتے ہو؟‘‘’’او رومی کتے!‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’میں تجھے آخری بار کہتا ہوں اسلام قبول کر لے یا جزیہ ادا کر۔‘‘وردان نے جھپٹ کر خالدؓکو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔’’آؤ، آؤ!‘‘وردان نے اپنے دسآدمیوں کو پکارا جو قریب کہیں چھپے ہوئے تھے۔خالدؓ کم طاقتور تو تھے نہیں لیکن وردان بھی طاقت میں کچھ کم نہ تھا۔خالدؓنے بہت زور لگایا کہ وردان سے ذرا سا آزاد ہو جائیں، تاکہ تلوار نیام سے نکال سکیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔انہوں نے دیکھا کہ دس رومی اپنی فوجی وردی میں ان کی طرف دوڑے آرہے ہیں ۔خالدؓ کو اپناآخری وقت نظر آنے لگا۔انہیں توقع تھی کہ ضرار اور ان کے نو مجاہدیننے گھات والے دس رومیوں کو ختم کر دیا ہوگا مگر وہ دس کے دس زندہ چلے آرہے تھے۔خالدکو خیال آیا کہ ضرار اور ان کے مجاہدین رومیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا بروقت پہنچ نہیں سکے۔رومی جب قریب آئے تو ایک نے خود، زرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی، اور اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔تب خالدؓنے دیکھا کہ یہ تو ضرار ہے۔انہوں نے باقی نو کو قریب سے دیکھاتو وہ ان کے اپنے ہی منتخب کیے ہوئے مجاہدین تھے۔یہ مذاق ضرار بن الازور نے کیا تھا۔انہوں نے گھات میں بیٹھے ہوئے رومیوں کو بڑے اطمینان سے قتل کر دیا تھا پھر ان کی وردیاں اتار کر پہن لیں۔انہیں معلوم تھا کہ وردان پکارے گا۔وہوردان کی پکار پر نکل آئے۔وردان خوش ہو گیا کہ اس کی سازش کامیاب ہو گئی ہے۔’’پیچھے ہٹ ابنِ ولید!‘‘ضرار نے تلوار نکال کر کہا۔’’یہ میرا شکار ہے۔‘‘اور وہ وردانکی طرف بڑھنے لگے۔’’قسم ہے تجھے اس کی جوکوئی بھی تیرا معبود ہے۔‘‘وردان نے خالدؓسے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے ختم کر اور اس شیطان کو مجھ سے دور رکھ۔‘‘ ضرار نے اپنی ایک دہشت ناک مثال قائم کر رکھی تھی ، وردان نے ضرار کو ذاتی مقابلوں میں رومیوں کو کاٹتے بھی دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ضرار اسے اذیت دے دے کر ماریں گے،اس کیلئے اب بھاگ نکلنا نا ممکن تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اسے جلدی مار دیاجائے۔خالدؓ نے ضرا ر کو اشارہ کیا اور ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ضرار نے اپنی تلوار خالدؓ کو دے دی۔وردان نے دوسری طرف منہ کر لیا، خالدؓکے ایک ہی وار سے وردان کا سر زمین پر جا پڑا۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔فوراًاپنی فوج تک پہنچے اور حملے کا حکم دے دیا۔یہحملہ بھی گذشتہ روز کی مانند تھا۔خالدؓنے قلب اور دونوں پہلوؤں کے دستوں کو ایک ہی بار ہلہ بولنے کا حکم دیا۔انہوں نے چار ہزار مجاہدین کا محفوظہ جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، پیچھے رکھا۔مسلمان حملہ کرتے اورپیچھے ہٹ آتے تھے اور پھر حملہ کرتے تھے ۔رومی تعداد میں بہت زیادہ تھے لیکن ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں تھا۔اس کی جگہ ان کا سالار قُبقُلار کما ن کر رہا تھا۔رومی جم کر مقابلہ کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کے حملے غضب ناک تھے۔ان کے سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔خود خالدؓ سالارسے سپاہی بن گئے تھے۔رومی سالار لڑا نہیں کرتے بلکہ حکم دیا کرتے تھے۔لیکن اس معرکے میں وہ مسلمان سالاروں کی دیکھا دیکھی سپاہیوں کی طرح لڑنے لگے۔جنگ کی شدت اور خونریزی بڑھتی چلی گئی ۔دونوں طرف کوئی چال نہیں چلی جا رہی تھی۔زیادہ نقصان رومیوں کا ہو رہا تھا، ان کا لشکر تہہ در تہہ تھا۔خالدؓنے یہ سوچ کر اتنا شدید حملہ کرایا تھا کہ دشمنکا سالارِ اعلیٰ مارا جا چکا ہے اور مجاہدین یہ دیکھ کر تابڑ توڑ حملے کرتے تھے کہ رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں پھنس کہ رہ گئے ہیں۔ خالدؓحملے کا اک اور مرحلہ شروع کرنا چاہتےتھے جس کیلئے وہ موزوں موقع دیکھ رہے تھے۔چند گھنٹوں بعد انہیں یہ موقع ملا۔دونوں فوجیں تھک گئی تھیں۔رومیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں۔البتہ دوسرے رومی سالار پورے جوش و خروش سے لڑ بھی رہے تھے اور لڑا بھی رہے تھے۔خالدؓنے چار ہزار نفری کے محفوظہ کو جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دیا۔یہ چار ہزار مجاہدین تازہ دم تھے اور لڑائی میں شریک ہونے کیلئے اتنے بیتاب کہ نعرے لگاتے اور بے قابو ہوئے جاتے تھے۔حکم ملتے ہی وہ رُکے ہوئے سیلاب کی طرح گئے اور اتنا شدید حملہ کیا کہ رومیوں کی صفوں کے اندر تک چلے گئے۔مجاہدین کے سالار رومیوں کے سالار قُبقُلار کو ڈھونڈ رہے تھے۔مرکزی جھنڈا اسی کے پاس تھااور وہ وردان کا قائم مقام تھا۔پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نے وردان سے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کر لیا جائے۔اس کی دور بین نگاہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمان رومیوں پر غالب آجائیں گے۔وردان نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔ مؤرخ طبریاور ابو سعید نے لکھا ہے کہ مجاہدین کو قُبقُلار مل گیا۔اسےدیکھ کر سب حیران رہ گئے۔وہ سالار لگتا ہی نہیں تھا۔وہ تو جنگ سے لا تعلق کھڑا اس نے اپنے سر پر اس طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی ڈھکی ہوئی تھیں اس کے محافظوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا شاید اس لیے کہ وہ اپنے سپہ سالار کو نیم مردہ سمجھ رہے تھے انہی سے پتا چلا تھا کہ یہ ہے قُبقُلار۔مجاہدین نے اسے اسی حالت میں قتل کر دیا، بعض مؤرخوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ قُبقُلار نے اپنی آنکھوں پر اس لیے کپڑا ڈال رکھا تھا کہ وہ اپنے لشکر کا قتل ِ عام نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی تھی۔رومیوں کا مرکزی پرچم گر پڑا۔ مجاہدین اب یہ نعرے لگا رہے تھے’’خدا کی قسم!ہم نے رومیوں کے دونوں سپہ سالاروں کو قتل کر دیا ہے۔‘‘’’رومیو !تمہارا پرچم کہاں ہے؟‘‘’’شہنشاہ ہرقل کو بلاؤ۔‘‘’’رومیو!تمہاری صلیبیں اور جھنڈے کہاں ہیں؟‘‘مجاہدین ِ اسلام تواپنے اﷲ و رسولﷺ اور ایک عقیدے کی خاطر لڑ رہے تھے لیکن رومی جن کے حکم سے لڑ رہے تھے وہ مارے جا چکے تھے۔ مجاہدین کے پاس ایمان کی قوت تھی، وہ جادو کی طرح رومیوں پر غالب آگئے۔رومی بھاگنے لگے۔ان میں سے کچھ بیت المقدس کی طرف بھاگے جا رہے تھے کچھ غزہ اور بعض یافا کی طرف۔رومیوں کی جنگی طاقت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے خالدؓنے اپنے سوار دستوں کو حکم دیا کہ بھاگتے دشمن کا تعاقب کریں اور کسی کو زندہ نہ چھوڑیں ۔وہ ایک عبرت ناک منظر تھا۔رومی جانیں بچانے کیلئے اِددھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور مسلمان سوار ان کے تعاقب میں جاکر انہیں برچھیوں میں پرو رہے تھے۔ان رومیوں نے اپنی تعداد پر بھروسہ کیا تھا، شراب کے نشے کو وہ اپنی طاقت سمجھے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کوغریب اور نادار سمجھ کر انہیں ایک ایک دینار پیش کیا تھا۔خالدؓ نے انہیں کہا تھا کہ تم سے دینار تو ہم لے ہی لیں گے۔اب ان رومیوں کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی،ان کا میدانِ جنگ میں اتنا نقصان نہیں ہوا تھا جتنا میدانِ جنگ سے بھاگتے وقت ہوا۔ ان میں سے خوش قسمت وہ تھے جو بیت المقدس پہنچ گئے اور شہر میں داخل ہو گئے تھے۔یہ قتل عام اسوقت رُکا جب سورج غروب ہو گیا اور اندھیرا اتنا کہ سواروں کو اپنے گھوڑوں کے سر نظر نہیں آتے تھے۔اس وقت خالدؓ اپنے خیمے میں تھے۔انہیں بتایا گیا کہ داؤد نام کا اک عیسائی عرب ان سے ملنے آیا ہے۔خالدؓ نام سنتے ہی باہر کو دوڑے۔’’خدا کی قسم داؤد!‘‘خالدؓ اسے گلے لگا کر بولے۔’’تو نے میری فتح آسان کر دی ہے۔(بندوں کا شکریہ ادا کرنا بھی اعلیٰ اخلاق کی علامت ہوتی ہے۔) کوئی بھی انعام کافی نہیں ہو سکتا جو میں تجھے دوں……کہاں ہیں تیرے بیوی بچے؟کسی نے ان پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا؟‘‘’’نہیںابنِ ولید!‘‘داؤد نے کہا۔’’میںکوئی انعام لینے نہیں آیا۔مجھے انعام مل چکا ہے۔دیکھ میں زندہ ہوں اورمیرا سارا خاندانزندہ ہے۔اب ایک انعام مجھے یہ دے کہ یہ راز تیرے سینے میں رہے کہ میں نے تیری کچھمدد کی تھی۔روم کی شہنشاہی زندہ ہے۔ابھی تو تُو اس شہنشاہی میں داخل ہوا ہے۔‘‘’’تیرا راز قیصرِ روم تک نہیں پہنچے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور خداکی قسم!تو مالِ غنیمت کے حصے کا حقدار ہے۔میں تجھے حصہ دوں گا اور تو جو مانگے گا دوں گا۔‘‘چندروز بعد مدینہ میں عید جیسی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔خالدؓنے امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ کو خط لکھاتھا کہ تین گنا طاقتور رومیوں پر کس طرح فتح حاصل کی گئی ہے، جس میں پچاس ہزاررومی ہلاکہوئے ہیں۔اس کے مقابلے میں شہید ہونے والے مجاہدین کی تعدادچار سو پچاس تھی،خالدؓ کا یہ خط پہلے مسجد میں پڑھ کر سنایا گیا۔پھر مدینہ کی گلیوں میںلوگوں کو اکٹھا کرکے سنایا گیا،لوگ ایکدوسرے سے بغل گیر ہونے لگے۔مدینہ فتح و مسرت کے نعروں سے گونجنے لگا۔خالدؓنے امیر المومنینؓ کو بھی یہی لکھا تھا کہ اب وہ دمشق کو محاصرے میں لیں گے جو شام کا یعنی روم کی شہنشاہی کا بڑا ہی اہم شہر تھا۔روم کی شہنشاہی بہت ہی وسیع تھی۔جب مدینہ اور گردونواح کے لوگوں کویہ خبر ملی کہ خالدؓ رومیوں پر ایک فتح حاصل کرکے دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کئی مسلمان خالدؓکی فوج میں شاملہونے کیلئے تیار ہو گئے۔ان میں ابو سفیانؓبھی تھے جو مشہور شخصیت تھے۔وہاپنی بیوی ہند کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ایک ہزار تین سو باون سال پہلے ماہ اگست کے ایک روز جب مدینہ میں مسلمان اجنادین کی فتح پر خوشیاں منا رہے تھے ،مدینہ سے دور، بہت ہی دور، شمال میں روم کی شہنشاہی کے ایک اہم شہر حمص پر مایوسی اور ماتم کی سیاہ کالی گھٹا چھا گئی تھی۔رومیوں کے شہنشاہ پرقل کے محل میں قہر اور غضب کی آوازیں گرج رہی تھیں۔بصرہ کی شکست کی خبر لے کر جانے والا قاصد اگر وہاں سے کھسک نہ آتا تو ہرقل غصے میں اس کا سر کاٹ دیتا۔’’ہمارے سپہ سالار وردان کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔’’مارا گیا ہے۔‘‘اسے کانپتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔’’اور وہ قُبقُلار؟……وہ کہتا ہے کہمیری تلوار کی ہوا سے ہی دشمن کٹ جاتا ہے۔‘‘’’وہ بھی مارا گیا ہے۔‘‘’’اورفاموس؟‘‘’’وہ لڑائی سے پہلے ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔ شہنشاہِ ہرقل نے ان تمام سالاروں کے نام لیے جو اجنادین کی لڑائی میں شامل تھے،اور جن کی بہادری اور جنگی قیادت پر اسے بھروسہ تھا۔اسے یہی جواب ملا کہ مارا گیا ہے یا شدید زخمی ہو گیاہے۔وہ سب ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے تھے۔ان میں سے بعض بھاگ گئے تھے۔’’……اور اب مسلمان دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل کو بتایاگیا۔’’دمشقکی طرف؟‘‘اس نے ہڑبڑا کر کہا۔’’نہیں……نہیں……میں انہیں دمشق تک پہنچنے نہیں دوں گا۔وہ دمشق ہم سے نہیں لے سکتے۔وہاں میرا شیر موجود ہے……تُوما……دمشقکا سالار تُوما ہے۔‘‘ہر قل تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے شاہانہ کمرے میں چل رہا تھا اور اپنی ایک ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے مکے مارے جا رہا تھا۔اس کے خوشامدی، درباریوں ، خاص خادموں اور اس کی خدمت میں حاضر رہنے والی بڑی حسین لڑکیوں کو معلوم تھا کہ جب شہنشاہ پریشانی ، یاسےّت ، اور غصے کی کیفیت میںہوتا ہے تو سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی شراب پیش کرتی ہے۔ایک لڑکی جو باریک ریشمی لباس میں برہنہ لگتی تھی، چاندی کے پیالے میں شراب لے کر آئی، اور اشتعال انگیز ادا سے ہرقل کے سامنے گئی۔ہرقل بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح پھنکار رہا تھا۔اس نے لڑکی کے ہاتھوں میں طشتری دیکھ کر بڑی زور سے طشتری کے نیچے ہاتھ مارا۔شراب کا پیالہ لڑکی کے منہ پر لگا، طشتری چھت تک جا کر واپس آئی۔ہرقل نے لڑکی کو دھکا دیا تووہ دروازے میں جا پڑی۔’’شراب……شراب……شراب!‘‘ہرقل نے غصے سے کہا۔’’تم نے شراب اور حسین لڑکیوں سے دل بہلانے اور بدمست رہنے والوں کا انجام نہیں دیکھا؟تم نہیں دیکھ رہے وہ سلطنتِ روم کو ذلت و رسوائی میں پھینک رہے ہیں……اور جنہوں نے ہمیں شکست دی ہے انہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی ہے۔اس نے حکم دیا۔گھوڑا تیار کرو۔میں انطاکیہ جارہا ہوں،اور میں اس وقت وہاں سے واپس آؤں گا جب میں آخری مسلمان کی بھی لاش دیکھ لوں گا۔‘‘بادشاہ جنگ کیلئے جب کوچ کرتے تھے تو اس کیلئے بہت سے انتظامات کیے جاتے تھے۔محافظ دستہ اور بادشاہ کی من پسند عورتیں ساتھ جاتی تھیں۔ایسے انتظامات ہر وقت تیار رہتے تھے۔مگر اب کے ہرقل تو جیسے اُڑ کر انطاکیہ پہنچنے کی کوشش میں تھا۔اس کے کوچ کے انتظامات کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،اور وہ انتظامات میں مصرو ف ہو گئے۔ خالدؓاجنادین میں سات روزرہے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ دشمن کو کہیں سستانے اور دم لینے کی مہلت نہ دو۔اسے اتنی مہلت نہ دو کہ وہ اپنی بکھری ہوئی جمیعت کو اکٹھا کر سکے۔اس اصول کے تحت دمشق کی طرف ان کا کوچ بہت تیز تھا۔انہوں نے اپنے جاسوس پہلے بھیج دیئے تھے۔اب خالدؓ نے جاسوسی کا نظام مزید بہتر بنا دیاتھا۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ قیصرِ روم کی سلطنت بہت وسیع ہے، اور اس کے مطابق اس کی فوج بھی زیادہ ہے اور برتر بھی۔ایسی فوج پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احوال و کوائف کا قبل از وقت معلوم کرنا ضروری تھا،اور اتنا ہی ضروری ان علاقوں کے خدوخالکا جاننا تھا جہاں جہاں اس فوج کے دستے موجود تھے ان کی نقل و حرکت کے متعلققبل از وقت معلومات حاصل کرنا بھی سودمند تھا۔راستے میں بیت المقدس آتا تھا۔خالدؓ نے اس اہم شہر کو نظر انداز کر دیا اورا س سے کچھ فاصلے سے آگے چلے گئے۔لیکن ایک مقام کو نظر انداز کرنامشکل تھا۔اس بستی کا نام فحل تھا جو ایک مضبوط قلعہ تھا۔خالدؓاس کے قریب پہنچے تو ایک فقیر نے جو پاگل لگتا تھا، خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓبن ولید نے اسے اپنے پاس بلالیا۔’’کیاخبرلائے ہو؟‘‘خالدؓ نے اس سے پوچھا۔وہ خالدؓ کا جاسوس تھا۔’’اس بستی کا نام فحل ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’آپ دیکھ رہے ہیں یہ قلعہ ہے۔اس کے اندر فوج ہے۔باہر کچھ بھی نہیں۔رومیوں سے ہماری جہاں کہیں بھی ٹکر ہو گی،اس قلعے سے رومیوں کو کمک اور دیگر مدد ملے گی۔‘‘خالدؓ نے اس قلعے کا محاصرہ ضروری نہ سمجھا۔وہ اپنی نفری کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔دمشق کی تسخیر کوئیمعمولی مہم نہیں تھی۔بلکہ اپنی شکست کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے،خالدؓ نے اپنے ایک نائب سالار ابوالاعور کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ ایک سوار دستہ اپنے ساتھ رکھے اور فحل کے قریب کہیں تیاری کی حالت میں موجودرہے۔یہاں سے فوج باہر نکلے تو تیروں کی بوچھاڑیں مارےاور کسی کو باہر نہ نکلنے دے۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔ابوالاعور نے ایک سوار دستہ وہاں روک لیا اور اس قلعہ بندبستی کے جتنے دروازے تھے ان سب کے سامنے سوار متعینکر دیئے۔سواروں کو گھوڑوں سے اترنے کیاور محدود سے فاصلے تک گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی

No comments:

Post a Comment

The day of the most tough error For the Deniers

For the deniers  . The day of the most Tough error.  For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...