کیا تم نےنہیں سوچا کہ ہم ابنِ ولید کے کسی کام نہیں آرہے؟وہ جوں جوں آگے بڑھتا جا رہا ہے ، اس کی مشکلات خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔اس کا لشکر تھک کر بے حال ہو چکا ہو گا،آگے دمشق ہے،بصرہ ہے۔ غسانی ہیں، عیسائی اوررومی ہیں، کیا یہ تینوں یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دیں اور جب وہ مسلسل کوچ اورلڑائیوں سے شل ہو جائیں اور ان کی نفری کم ہو جائے تو انہیں کسی مقام پر گھیر کر ختم کر دیا جائے؟‘‘’’رومیونے ایسا ضرور سوچا ہوگا۔‘‘سالار یزیدؓ نے کہا۔’’رومی لڑنے والی قوم ہے،اور اس کے سالار عقل والے ہیں۔‘‘ ’’خدا کی قسم!میں رومیوںکو ایسا موقع نہیں دوں گا۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے پر جوش لہجے میں کہا۔’’کیا ہم اتنی دور سے ابنِ ولید کی کوئی مدد نہیں کر سکتے؟……بے شک کر سکتے ہیں۔‘‘’’تو نے جو سوچا ہے وہ ہمیں بتا ابو عبیدہ!‘‘شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا ۔’’ اﷲاس کا مددگار ہے۔‘‘’’ابنِ ولید کے آگے دمشق اور بصرہ دو ایسے مقام ہیں جہاں رومیوں اور غسانیوں نے اپنی فوجیں جمع کر رکھی ہوں گی۔‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’اس سے پہلے کہ سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید بصرہ پہنچے ہم بصر---------------------------یہ ہوگا کہ رومی اور غسانی بھی تازہ دم نہیں رہیں گے……ابنِ حسنہ!‘‘ابو عبیدہؓ نے شرجیلؓ سے کہا۔’’میں یہ کام تمہیں سونپتا ہوں۔چار ہزار نفری کافی ہوگی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو ہدایات دیں اور بصرہ کو روانہ کر دیا۔اس وقت خالدؓ مرج راہط سے فارغ ہو چکے تھے ،اور انہوں نے ابو عبیدہؓ کے نام یہ پیغام دے کر قاصد روانہ کر دیا تھا کہ ابو عبیدہؓ اپنے دستوں کے ساتھ انہیں بصرہ کے قریب کہیں ملیں، خالدؓ نے مرج راہط کے قصبے کے باہر دو چار روز قیام کیا تھا،۔ شرجیلؓ چار ہزار مجاہدین کے ساتھ بصرہ پہنچ گئے……رومی بصرہ کے باہر خیمہ زن تھے ، وہ سمجھے یہ خالدؓکی فوج ہے۔ان کے جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ اس فوج کا سالار کوئی اور ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کی فوج کا ہراول ہے اور پوری فوج پیچھے آرہی ہے……وہ مان نہیں سکتے تھے کہ اتنی فوج اتنے بڑے لشکر کو محاصرے میں لینے آئی ہوگی۔رومیفوج جس کی تعداد بارہ ہزار تھی قلعے کے اندر چلی گئی ۔بصرہ قلعہ بند شہر تھا۔شرجیلؓ نے قلعے کے قریب مغرب کی طرف کیمپ کیا اور اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کرکے قلعے کے ہرطرف متعین کر دیا۔دودن گزر گئے۔رومی اور غسانی قلعے کی دیواروں کے اوپر سے مسلمانوں کو دیکھتے رہے۔شرجیلؓ نے قلعے کے اردگرد کچھ نہ کچھ حرکت جاریرکھی۔ دشمن قلعے سے دور دور بھی دیکھتا تھا ۔اسے توقع تھی کہ مسلمانوں کی پوری فوج آرہی ہے۔اسے اب اپنے جاسوسوں کے ذریعے کوئی خبر نہیں ملسکتی تھی کیونکہ قلعہ محاصرے میں تھا۔ سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ رسولِ کریمﷺکے قریبی صحابیؓ تھے۔جو صحابہ کرامؓ وحی لکھتے تھے ، ان میں شرجیلؓ بن حسنہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اسی حوالے سے انہیں کاتبِ رسول کہا جاتا تھا۔شرجیلؓکا زہدوتقویٰ تو مشہور تھا ہی ، وہ فن حرب و ضرب اور میدانِ جنگ میں قیادت کی مہارت رکھتے اور کہا کرتے تھے کہ انہوں نے یہ فن خالدؓ سے یمامہ کی جنگ میں پھر آتش پرستوں کے خلاف لڑائیوں میں سیکھا ہے۔محاصرہ بصرہ کے وقت ان کی عمر ستر سال سے کچھ ہی کم تھی، جذبے اور جوش و خروش کے لحاظسے وہ جوان تھے اور ان کی شہسواری اور تیغ زنی جوانوں جیسی ہی تھی۔محاصرے کاتیسرا دن تھا، رومیوں کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی نفری اتنی ہی ہے جس نے محاصرہ کررکھا ہے۔اگر مزید فوج نے آنا ہوتا تو اب تک آچکی ہوتی۔چنانچہ انہوں نے اپنی بارہ ہزار نفری کی فوج باہر نکال لی۔نفری کی افراط کے بل پر وہ ایسی دلیرانہکارروائی کر سکتے تھے۔مسلمان کل چارہزار تھے۔شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے دستوں کو اکٹھاکرکے جنگی ترتیب میں کرلیا۔اس طرح دونوں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔’’اے رومیو!‘‘شرجیلؓ نے آگے آکر بلند آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم!ہم بھاگنے کیلئے نہیں آئے۔اپنی پہلی شکستوں کو یاد کرو، تم ہر میدان میں ہم سے زیادہ تھے۔خون خرابے سے تم بچتے کیوں نہیں؟ہماری شرطیں سن لو اور اپنے شہر اور اپنی آبادی کو تباہی سے بچالو۔‘‘’’ہمشکست کھانے کیلئے باہر نہیں آئے۔‘‘رومی سالارنے آگے آکر کہا۔’’واپس چلے جاؤ اور زندہ رہو، وہ کوئی اور تھے جنہوں نے تم سے شکستیں کھائی ہیں۔‘‘’’خدا کی قسم!ہم لڑائی سے منہ نہیں موڑیں گے۔‘‘شرجیلؓ نے اعلان کیا۔’’لیکن تمہیں ایک موقع دیں گے کہ سوچ لو، آگے آؤاور ہماری شرطیں سن لو۔‘‘مکالموں اور للکار کا تبادلہ ہوا، اور رومی سالاروں نے شرائط پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ان کا سپہ سالار آگے گیا۔ادھر سے شرجیلؓ بن حسنہ آگے گئے۔’’بول اے مسلمان سالار!‘‘رومی سالار نے کہا۔’’اپنی شرائط بتا۔‘‘’’اسلام قبول کرلو۔‘‘ شرجیلؓ نے کہا۔’’یہ منظور نہیں تو جزیہ ادا کرو۔یہ بھی منظور نہیں تو لڑائی کیلئے تیار ہو جاؤ۔‘‘ ’’ہم اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے اور ہم جزیہ نہیں دیں گے ۔لڑائی کیلئے ہم تیارہیں۔‘‘اس کے ساتھ ہی رومی سالار نے مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔رومیوں کی تعداد تین گنا تھی۔شرجیلؓ نے اپنے چار ہزار مجاہدین کو جنگی ترتیب میں صفآراء کررکھا تھا۔انہیں اپنی نفری کی قلت کا احساس بھی تھا۔انہون نے اپنے دونوں پہلوؤں کو پھیلا دیا تھا تاکہ دشمن گھیرے میں نہ لے سکے۔رومی جنگجو تھے اور ان کے سالار تجربہ کار تھے۔وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی ہی کوشش کر رہے تھے ،لڑائی گھمسان کی تھی ، شرجیلؓ قاصدوں کو دائیں بائیں دوڑا رہے تھے اور مجاہدین کو للکار بھی رہے تھے ، مجاہدین اپنی روایت کے مطابق بے جگری سے لڑ رہے تھے لیکن رومی بارہ ہزار تھے ۔ ان کےسالار انہیں دائیں بائیں پھیلاتے جا رہے تھے ۔شرجیلؓ نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو انہیں اپنے دستوں کی صورتِ حال بڑی تشویشناک دکھائی دی۔ایسی صورت حال پسپائی کا مطالبہ کیا کرتی ہے لیکن شرجیلؓ کی للکار پر مجاہدین کا جوش اور جذبہ بڑھ گیا۔وہ پسپائی کے نام سے ناواقف تھے ، ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی اور چارپانچ گھنٹے گزر گئے۔پھر وہ صورت پیدا ہو گئی جس سے شرجیلؓ بچنے کی کوشش کر رہے تھے ، دشمن کے پہلو پھیل کر مسلمانوں کے پہلوؤںسے آگے نکل گئے تھے۔وہ گھیرے میںآچکے تھے۔’’اندر کی طرف نہیں سکڑنا۔‘‘شرجیلؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے کمانداروں کو پیغام بھیجے۔’’ باہر کی طرف ہونے کی کوشش کرو۔‘‘شرجیلؓ کی چالیں بے کار ہونے لگیں۔بے شک مسلمانوں کا جذبہ رومیوں کی نسبت زیادہ تھا لیکن رومی تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ مسلمانوں پر غالب آسکتے تھے۔ ’’اﷲکے پرستارو!‘‘شرجیلنے للکار کر کہا۔’’فتح یا موت……فتح یا موت……فتح یا موت……اﷲسے مددمانگو۔ اﷲکی راہ میں جانیں دیدو۔اﷲکی مدد آئے گی۔‘‘مسلمانوں کیلئے یہ زندگی اور موت کا معرکہ بن گیا تھا۔شرجیلؓ کی پکار اورللکار پر مجاہدین نے بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا جس سے انہیں تقویت ملی لیکن رومی ان پر حاوی ہو گئے تھے،مسلمانوں کے جوش اور جذبے میں قہر پیدا ہو گیاتھا۔رومی فوج مسلمانوں کے عقب میں چلی گئی ، اب مسلمانوں کا کچلا جانا یقینی ہو گیا تھا۔رومی جو مسلمانوں کے عقب میں چلے گئے تھے ،انہیں اپنے عقب میں گھوڑے سر پٹ دوڑنے کا طوفانی شور سنائی دیا۔انہوں نے پیچھے دیکھا تو سینکڑوں گھوڑے ان کی طرف دوڑے آرہے تھے۔ان کے آگے دو سوار تھے جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ان میں سے ایک کے سر پر جو عمامہ تھا اس کا رنگ سرخ تھا……وہ خالدؓ تھے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ کی طرف آرہے تھے۔ان کے راستے میں دمشق آیا تھا لیکن وہ دمشقسے ہٹ کر گزر آئے تھے، پہلے وہ بصرہ کو فتح کرنا چاہتے تھے۔یہ اﷲکےاشارے پر ہوا تھا۔اﷲنے کاتبِ رسولﷺ کی پکار اور دعا سن لی تھی۔ خالدؓ جب کوچکرتے تھے تو اپنے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا کرتے تھے۔ بصرہ کی طرف آتے وقت بھی انہوں نے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا تھا۔ؒخالدؓ بصرہ سے تقریباًایک میل دور تھے۔جب ان کا ایک شتر سوار جاسوس اونٹ کو بہت تیز دوڑاتا واپس خالدؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ مسلمانوں کا کوئی لشکر بصرہ کے باہر رومیوں کے گھیرے میں آرہا ہے۔ ‘ ‘کون ہے وہ سالار؟‘‘خالدؓ نے کہا اور سوار دستوں کو ایڑھ لگانے اور برچھیاں اور تلواریں نکال لینے کا حکم دے دیا۔خالدؓکے ساتھ جو دوسراسوار گھوڑ سواروں کے آگے آگے آرہا تھا وہ خلیفۃ المسلمینؓ کا بیٹا عبدالرحمٰنؓ تھا۔ اس نے اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔رومیوں نے مقابلے کی نہ سوچی۔ان کےسالاروں نے تیزی دکھائی، اپنے پہلوؤں کے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا اور اپنے تمام دستوں کو قلعے کے اندر لے گئے۔ ان کا مسلمانوں کی تلواروں سے کٹ جانا یقینی تھا۔قلعے میں داخل ہوتے ہوتے مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور کئی رومیوں کو ختم کردیا۔قلعے کے دروازے بند ہو گئے۔خالدؓغصے میں تھے۔انہوں نے ایک حکم یہ دیا کہ زخمیوں اور لاشوں کو سنبھالو، اور دوسرا حکم یہ کہ تمام لشکراکٹھا کیا جائے، انہوں نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو بلایا۔’’ولیدکے بیٹے!‘‘شرجیلؓ نے آتے ہی خالدؓ سے کہا۔’’خدا کی قسم!تواﷲکی تلوار ہے۔تو اﷲکی مدد بن کر آیا ہے۔‘‘’’لیکن تو نے یہ کیا کیا ابنِ حسنہ!‘‘خالدؓ نے غصے سے کہا۔’’کیا تو یہ نہیں جانتا کہ یہ قصبہ دشمن کا مضبوط قلعہ ہے اور یہاں بے شمار فوج ہوگی؟کیا اتنی تھوڑی نفری سے تو یہ قلعہ سر کرسکتا تھا؟‘‘’’میں نے ابو عبیدہ کے حکم کی تعمیل کی ہے ابنِ ولید!‘‘شرجیلؓ نے کہا- ’’آہ ابوعبیدہ!‘‘خالدؓنے آہ لے کر کہا۔’’میں اس کا احترام کرتا ہوں۔ وہ متقی و پرہیزگارہے۔لیکنمیدانِ جنگ کو وہ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔‘‘مؤرخ واقدی لکھتا ہےکہ ابوعبیدہؓ کو سب خصوصاًخالدؓ بزرگ و برتر سمجھتے تھے۔لیکن جس نوعیت کی لڑائیاں جاری تھیں ان کیلئے ابو عبیدہؓ موزوں نہیں تھے لیکن جہاں نفری کی کمی تھی وہاں سالاروں کی بھی کمی تھی۔بہرحال،مؤرخلکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ جذبے اور حوصلے میں کسیسے پیچھے نہیں تھے اور وہ بڑی تیزیسے تجربہ حاصل کرتے جا رہے تھے۔بصرہپر ان کا حملہ جرات مندانہ اقدام تھا۔خالدؓ قلعے کے باہر اپنی اور شرجیلؓ کی نفری کا حساب کر رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے کہ قلعےکے اندر کتنی نفری ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں چند ایک رومی سپاہی آگئے تھے جو زخمی تھے۔خالدؓ کے لشکرکے آجانے سے مسلمانوں کی نفری تیرہ ہزار کے قریبہو گئی تھی ،لیکن رومیوں غسانیوں اور عیسائیوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی۔’’کیا تم بھی ڈر کر بھاگ آئے ہو؟‘‘قلعے کے اندر جبلہ بن الایہم رومی فوج کے سپہ سالار پر غصہ جھاڑ رہا تھا۔’’ کیا تم نے اس فوج کا جو قلعے کے اندر تھی اور شہر کے لوگوں کا حوصلہ توڑ نہیں دیا؟‘‘ ’’نہیں!‘‘رومی سالار نے کہا۔’’میں مسلمانوں پر باہر نکل کر حملہ کر رہا ہوں،اگر میں ان کے عقب میں گئے ہوئے دستوں کوپیچھے نہ ہٹا لیتا تو ان کے عقب سے مسلمان سالار انہیں بری طرح کاٹ دیتے۔مجھے ان کی نفری کا اندازہ نہیں تھا۔میں صرف ایک دن انتظار کروں گا،ہو سکتا ہے کہ ان کی مز ید فوج آرہی ہو، میں انہیں آرام کرنے کی مہلت نہیں دوں گا۔‘‘ ’’پھر انہیں قلعے کا محاصرہ کرلینے دو۔‘‘ جبلہ نے کہا۔’’انہیں قلعے کے ا ردگرد پھیل جانے دو، پھر تم قلعے سے اتنی تیزی سے نکلنا کہ انہیں اپنے دستے اکٹھےکرلینے کی مہلت نہ ملے……اور شہر میں اعلان کر دو کہ گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ، دشمن کو قلعے کے باہر ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘‘قلعے کے اندر ہڑبونگ بپا تھی، شہریوں میں بھگدڑ اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔رومی فوج کا باہر جاکر لڑنا اور اندر آجانا شہریوں کیلئے دہشت ناک تھا۔ مسلمان فوج کی ڈراؤنی ڈراؤنی سی باتیں تو شہر میں پہلے ہی پہنچی ہوئیتھیں۔مؤرخوں کے مطابق رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں کو آرام کی مہلت ہی نہ دی جائے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ مسلمان آرام کر نے کے عادی ہی نہیں ، انہیں اتنی ہی مہلت کی ضرورت تھی کہ زخمیوں کو سنبھال لیں اور شہیدوں کی لاشیں دفن کر لیں۔اگلے روز کا سورج طلوع ہونے تک رومی فوج قلعے سے باہر آگئی اور دروزے بند ہو گئے۔خالدؓ نے اپنے لشکر کو جنگی ترتیب میں کر لیا ۔قلعے کے باہر میدان کھلا تھا۔خالدؓنے حسبِ معمول اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قلب کی کمان اپنے پاس رکھی، اب چونکہ انہیں شرجیلؓ کے چار ہزار مجاہدین مل جانے سے ان کے پاس نفری کچھ زیادہ ہو گئی تھی اس لیے انہوں نےقلب کو محفوظ کرنے کیلئے ایک دستہ قلب کے آگے رکھا، اس دستے کی کمان خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ کے پاس تھی۔ایک پہلو کے دستوں کے سالار رافع بن عمیرہ اور دوسرے پہلو کے سالار ضرار بن الازور تھے۔ جنگکا آغاز مسلمانوں کے نعرہ تکبیر سے ہوا۔ رومی سپہ سالار اپنے قلب کے آگے آگے آرہا تھا۔عبدالرحمٰنؓبن ابو بکر جوان تھے۔خالدؓ نے جوں ہی ان کے دستے کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، عبدالرحمٰنؓ سیدھے رومی سالار کی طرف گئے۔ لڑائیشروع ہونے سے پہلے ہی ان کی نظریں اس رومی سالار پر لگی ہوئی تھیں۔عبدالرحمٰنؓ نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور تلوار سونت کر اس کی طرف گئے مگر اس کی طرف گئے تو وہ بڑی پھرتی سے آگے سے ہٹ گیا۔ عبدالرحمٰنؓآگے نکل گئے۔رومی سالار نے گھوڑا موڑااور عبدالرحمٰنؓ کے پیچھے گیا۔عبدالرحمٰن ؓنے گھوڑا موڑتے موڑتے دیکھ لیا، رومی نے وار کر دیا جو عبدالرحمٰنؓ بچاگئے۔ تلوار کا زنّاٹہ ان کے سر کے قریب سے گزرا۔اب عبدالرحمٰنؓ اس کے پیچھے تھے۔رومی گھوڑا موڑ رہا تھا، عبدالرحمٰنؓ نے تلوار کا زورداروار کیا جس سے رومی تو بچ گیا لیکن اس کے گھوڑے کی زین کا تنگ کٹ گیا، اور ضرب گھوڑے کو بھی لگی۔ گھوڑے کا خون پھوٹ آیا اور وہ رومی کے قابو سے نکلنے لگا۔رومی تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے بڑی مہارت سے گھوڑے کو قابو میں رکھا، اور اس نے وار بھی کیے۔ عبدالرحمٰنؓ نے ہر وار بچایا، اور انہوں نے رکابوں میں کھڑے ہوکر وار کیے تو رومی گھبراگیا۔اس کے آہنی خود اور زرہ نے اسے بچالیا لیکن اپنی ایک ٹانگ کو نہ بچا سکا، گھٹنے کے اوپر سے اس کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔تابڑ توڑ وار اسے مجبور کرنے لگے کہ وہ بھاگے اور وہ بھاگ اٹھا۔ اسے اپنی جان کا غم تھا یا نہیں ، اسے خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ وہ گر پڑا تو اس کا سارا لشکر بھاگ اٹھے گا۔ یہ سوچ کر کو وہ اپنے لشکر میں غائب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ عبدالرحمٰنؓ اس کے تعاقب سے نہ ہٹے، وہ ان کے ہاتھ تو نہ آیا لیکن اپنے لشکر کی نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا۔ خالدؓ نے رومیوں پر اس طرححملہ کیا کہ سالار رافع بن عمیرہ اور سالار ضرار بن الازور کو حکم دیاکہ وہ باہر کو ہو کر رومیوں پر دائیں اور بائیں سے تیز اور شدید ہلہ بولیں۔ مجاہدین شدید کا مطلب سمجھتے تھے۔ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق یہ حملہ اتنا تیز اور اتنا سخت تھا جیسے مجاہدین تازہ دم ہوں اور ان کی تعداد دشمن سے دگنی ہو۔ دونوں سالاروں کے دستے دیوانگی کے عالم میں حملہ آور ہوئے۔مؤرخ واقدی اور ابنِ قتیبہ لکھتے ہیں کہ سالار ضرار بن الازور نے جوش میں آکر اپنی زرہ اتار پھینکی۔یہ ہلکی سی تھی لیکن جولائی کا آغاز تھا، اور گرمی عروج پر تھی۔ ضرار نے گرمی سے تنگ آکر اور لڑائی میں آسانی پیدا کرنے کیلئے زرہ اتاری تھی۔انہوں نے اپنے دستوں کو حملے کاحکم دیا۔ان کا گھوڑا ابھی دشمن کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ انہوں نے قمیض بھی اتار پھینکی، اس طرح ان کا اوپر کا دھڑ بالکل ننگا ہو گیا۔ایسی خونریز لڑائی میں زرہ ضروری تھی، اور سَر کی حفاظت تو اور زیادہ ضروری تھی، لیکن ضرار بن الازور نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی۔انہیں اس حالت میں دیکھ کران دستوں میں کوئی اور ہی جوش پیدا ہو گیا ۔ضرار دشمن کو للکارتے اور ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ان کے سامنے جو آیا ان کی تلوار سے کٹ گیا۔وہ سالار سے سپاہی بنگئے تھے۔رافع بن عمیرہ نے رومیوں کے دوسرے پہلو پر ہلہ بولا تھا، ان کا انداز ایسا غضب ناک تھا کہ دشمن پر خوف طاری ہو گیا۔خالدؓ نے جب دیکھا کہ ضرار اور رافع نے دونوں پہلوؤں سے ویسا ہی ہلہ بولا ہے جیسا وہ چاہتے تھے اور دشمن کے پہلو عقب کی طرف سکڑ رہے ہیں تو خالدؓ نے سامنے سے ہلہ بول دیا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن پیچھے قلعے کی دیوار تھی جو دراصل شہر کی پناہ تھی، ان کیلئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہرہی۔ مجاہدین انہیں دباتے چلے گئے۔’’دروازے کھول دو۔‘‘ دیوار کے اوپر سے کوئی چلایا۔قلعے کے اس طرف کے دروازے کھل گئے اور رومی سپاہی قلعے کے اندر جانے لگے۔انہیں قلعے میں ہی پناہ مل سکتی تھی، مسلمانوں نے دباؤ جاری رکھا، اور رومی جم کر مقابلہ کرتے رہے۔ ان میں سے جسے موقع مل جاتا وہ قلعے کے اندر چلا جاتا۔ جو رومی قلعے میں پناہ لینے کو جا رہے تھے وہ ان کی تمام نفری نہیں تھی،ان کی آدھی نفری بھی نہیں تھی۔ان کی آدھی نفری خالدؓ کے دستوں سے نبرد آزما تھی، خالدؓ نے جب دیکھ لیا تھا کہ ان کے پہلوؤں کے سالار وں نے ویسا ہی حملہ کیا ہے جیسا کہ وہ چاہتے تھے تو انہوں نے دشمن کے قلب پر حملہ کر دیا۔رومی بڑے اچھے سپاہی تھے،وہ پسپا ہونے کی نہیں سوچ رہے تھے اور خالدؓانہیں پسپائی کے مقام تک پہنچانے کی سر توڑ کوششیں کررہے تھے۔خالدؓنے شجاعت اور بے خوف قیادتکا یہ مظاہرہ کیا کہ گھوڑے سے اتر آئے اور سپاہیوں کی طرح پا پیادہ لڑنے لگے۔اس کا اثر مجاہدین پر ایساہوا کہ وہ بجلیوں کی مانند کوندنے لگے۔یہ ان کے ایمان کا اور عشقِ رسولﷺ کا کرشمہ تھا کہ مسلسل کوچ اور معرکوں کے تھکے ہوئے جسموں میں جان اور تازگی پیدا ہو گئی تھی ۔یہ مبالغہ نہیں کہ وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔خالدؓ اس کوشش میں تھے کہ رومیوں کو گھیرے میں لے لیں لیکن رومی زندگی اور موت کا معرکہ لڑ رہے تھے۔وہ اب وار اور ہلے روکتے اور پیچھے یادائیں بائیں ہٹتے جاتے تھے۔وہمحاصرے سے بچنے کیلئے پھیلتے بھیجا رہے تھے۔آخر وہ بھی بھاگ بھاگکر قلعے کے ایک اور کھلے دروازے میں غائب ہونے لگے۔خالدؓ نے بلند آواز سے حکم دیا۔’’ان کے پیچھے قلعے میں داخل ہو جاؤ۔ ‘‘لیکن دیوار کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ برچھیاں بھی آئیں۔مجاہدین کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا، اور رومی جو بچ گئے تھے وہ قلعے میں چلے گئے اور قلعے کا دروازہ بندہو گیا۔باہر رومیوں اور ان کے اتحادی عیسائیوں کی لاشیںبکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ رہے تھے۔زخمی گھوڑے بِدکے اور ڈرے ہوئے بے لگام اور منہ زور ہو کر دوڑتے پھر رہے تھے۔چند ایک گھوڑ سواروں کے پاؤں رکابوں میں پھنسے ہوئے تھے اور گھوڑے انہیں گھسیٹتے پھر رہے تھے ۔سوار خون میں نہائی لاشیں بن چکے تھے۔لڑائی ختم ہو چکی تھی۔مجاہدین کے فاتحانہ نعرے گرج رہے تھے۔فتح ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی،دشمن کا نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن وہ قلعہ بند ہو گیا تھا۔فتح مکمل کرنے کیلئے قلعے سر کرنا ضروری تھا۔خالدؓ نے اپنے زخمیوں کو اٹھانے کا حکم دیا اور قاصد سے کہا کہ تمام سالاروں کو بلا لائے۔خالدؓنے ایک سوار کو دیکھا جو ان کی طرف آرہا تھا۔وہ دوسروں سے کچھ الگ تھلگ لگتا تھا۔ایک اس لیے کہ اس کا قد لمبا تھا اور جسم دبلا پتلا تھا۔عربایسے دبلے پتلے نہیں ہوتے تھے،یہ سوار کچھ آگے کو جھکا ہوا بھی تھا۔اس کی داڑھی گھنی نہیں تھی،اور لمبی بھی نہیں تھی۔اس داڑھی کو اس شخص نے مصنوعی طریقے سے کالا کر رکھا تھا۔وہ اس لیے بھی الگ تھلگ تھا کہ خالدؓ نے اسے لڑتے دیکھا تھا اور اس کاانداز کچھ مختلف سا تھا۔سب کیتوجہ اس شخص کی طرف اس وجہ سے بھی ہوئی تھی کہ اس کے ہاتھ میں پیلے رنگ کا پرچم تھا۔یہ وہ پرچم تھاجو خیبر کی لڑائی میں رسولِ اکرمﷺنے اپنے ساتھ رکھا تھا۔خالدؓ اسےپہچان نہ سکے، دھوپ بہت تیز تھی۔اس نے سر پر کپڑا ڈال رکھا تھا جس سے اس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا،خالدؓ کے قریب آکر وہ شخص مسکرایا تو خالدؓ نے دیکھا کہ اس آدمی کے سامنے کے دو تین دانت ٹوٹے ہوئے ہیں- ’’ابو عبیدہ!‘‘خالدؓنےمسرت سے کہا اور اس کی طرف دوڑے۔وہ ابو عبیدہؓ تھے۔مرج راہط سے خالدؓ نے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ انہیں بصرہ کے باہر ملیں۔ابو عبیدہؓ حواریں کے مقام پر پراؤ ڈالے ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے شرجیلؓ بن حسنہ کو چار ہزار مجاہدین دے کو بصرہ پر حملہ کرایا تھا۔ان کے پاس خالدؓ کا قاصدبعد میں پہنچا تھا۔ابو عبیدہؓ پیغام پر اس وقت بصرہ پہنچے جب خالدؓ رومیوں کے ساتھ بڑے سخت معرکے میں الجھے ہوئے تھے۔انہوں نے تلوار نکالی اور معرکے میں شامل ہو گئے۔ابوعبیدہؓ کی اسوقت عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی۔وہ رسولِ کریمﷺکے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ان کے دادا اپنے وقتوں کے مشہور جراح تھے۔اسی نسبت سے انہوں نے اپنا نام ابو عبیدہ بن الجراح رکھ لیا تھا۔ان کا نام عامر بن عبداﷲبن الجراح تھا۔لیکن انہوں نے ابو عبیدہ کے نام سے شہرت حاصل کی۔دبلا پتلا اور کچھ جھکا ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر جلال جیسی رونق رہتی تھی۔وہ دانشمند تھے۔میدانِ جنگ میں بھی ان کی اپنی شان تھی اور ذہانت اور عقلمندی میں بھی ان کا مقام اونچا تھا۔ابو عبیدہؓ کے سامنے کے دانت جنگِ احد میں ٹوٹے تھے۔اس معرکے میں رسولِ اکرمﷺ زخمی ہوگئے تھے۔آپﷺ کے خود کی زنجیروں کی دو کڑیاں آپﷺکے رخسار میں ایسی گہری اتری تھیں کہ ہاتھ سے نکلتی نہیں تھیں۔ابو عبیدہؓ نے یہ دونوں اپنے دانتوں سے نکالی تھیں اور اس کامیاب کوشش میں ان کے سامنے کے دو یا تین دانت ٹوٹ گئے تھے۔ابنِ قتیبہ نے لکھا کہ رسولﷺ ابو عبیدہؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور حضورﷺنے ایک بار فرمایا تھا کہ ’’ابو عبیدہ میری امت کا امین ہے ۔‘‘ اس حوالے سے ابو عبیدہ ؓکو لوگ امین الامت کہنے لگے۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ نے جب ابو عبیدہؓ کو بصرہ کے میدان میں دیکھا تو انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ ابو عبیدہؓ ان کی سپہ سالاری کو قبول نہیں کریں گے،گو خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو تحریری حکم بھیجا تھا کہ جب خالدؓ شام کے محاذ پر پہنچ جائیں تو تمام لشکر کے سالارِ اعلیٰ خالدؓ ہوں گے لیکن خالد ؓکو احساس تھا کہ معاشرے میں جو مقام اور رتبہ ابو عبیدہؓ کو حاصل تھا وہ انہیں حاصل نہیںتھا۔خالدؓ خود بھی ابو عبیدہؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔یہ احترام ہی تھا کہ بصرہ کے میدانِ جنگ میں خالدؓنے انہیں اپنیطرف آتے دیکھا تو خالدؓ دوڑ کر ان تک پہنچے ۔ابو عبیدہؓ گھوڑے سے اترنے لگے۔’’نہیں ابنِ عبداﷲ!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’گھوڑے سے مت اتر۔میں اس قابل نہیں ہوں کہ امین الامت میرے لیے گھوڑے سے اترے۔‘‘ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار رہے اور جھک کر دونوں ہاتھ خالدؓکی طرف بڑھائے۔خالدؓ نے احترام سے مصافحہ کیا۔’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ نے سے کہا۔’’ امیر المومنین کا پیغام مجھے مل گیا تھا جس میں انہوں نے تمہیں ہم سبکا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا ہے ۔میں اس پر بہت خوش ہوں۔کوئی شک نہیں کہ جنگ کے معاملات میں جتنی عقل تجھ میں ہے وہ مجھ میں نہیں۔
Visitors
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
The day of the most tough error For the Deniers
For the deniers . The day of the most Tough error. For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...
-
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کرلڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھ...
-
is safar meñ niiñd aisī kho ga.ī ham na so.e raat thak kar so ga.ī dāman-e-mauj-e-sabā ḳhālī huā bū-e-gul dasht-e-vafā meñ kho g...
-
Yo ur Move will d efine y our s hoot, M ove p erfectly y our s hoot w ill b e per fect .
No comments:
Post a Comment