Visitors

سط نمبر47

’’وہی جو تمہاری پیٹھ اٹھا سکے گی، اور کمر کو توڑے گی نہیں۔‘‘سالار نے کہا۔’’جزیہ……ہم خود دیکھیں گے کہ جو جزیہ ادا کرنے کے قابل نہیں اس سے ہم کچھ بھی نہیں لیں گے۔‘‘’’کچھ اور؟‘‘’’مسلمانوں کا لشکر، یا کوئی دستہ یا کوئی قاصد یہاں سے گزرے گا تو یہ اس بستی کی ذمہ داری ہوگی کہ اس پر حملہ نہ ہو۔‘‘ سالار نے کہا۔’’اگر وہ یہاں رکنا چاہیں گے تو ان کے جانوروں کا چارہ بستیکے ذمہ ہوگا۔ ان کی کوئی اور ضرورت جو تم پر بار نہیں ہوگی وہ تم پوری کرو گے۔ہمارے لشکر کا کوئی فرد بستی کےکسی گھر میں داخل نہیں ہوگا،تمہاری عزتوں کی اور تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔رومیوں کی طرف سے، غسانیوں اور فارسیوں کی طرف سے تمہیں کوئی دھمکی ملے گی یا تم پرکوئی حملہ کرے گا تو اس کا جواب ہم دیں گے۔‘‘دونوں بستیوں میں ایسے ہی ہوا، اس دور میں فوجوں کا یہ رواج تھا کہ بستیوں کو لوٹتی اجاڑتی چلی جاتی تھیں۔ کوئی عورت ان سے محفوظ نہیں رہتی تھی، جو آبادیاں ان کے آگے جھک جاتی تھیں، ان کے ساتھ تو فاتح فوجیں اور زیادہ برا سلوک کرتی تھیں ۔لیکن یہ روایت مسلمانوں نے قائم کی کہ جس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اسے اپنی پناہ میں لے لیا، اوراس کی عزت کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔اسی کا اثر تھا کہ کفار کی بستیاں ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کرتی جارہی تھیں۔خالدؓ کو اطلاع ملی کہ سخنہ اور قدمہ کی آبادی نے اطاعت قبول کرلی ہے تو انہوں نے وہاں کیلئے عمال مقررکرکے دونوں دستوں کو اپنے پاس بلا لیا۔خالدؓنے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔آگے قریتین کا قصبہ تھا، جس کی آبادی دوسریبستیوں کی نسبت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اس کے قریب پہنچ کر لشکر کو روک لیا اور اپنے دو نائبین سے کہا کہ وہ بستی میں جا کر صلح اور معاہدے کی بات کریں۔یہ دونوں ابھی چلے ہی نہیں تھے کہ وہاں ایک آبادی نے دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کر دیا۔یہ حملہ اگر غیر متوقع نہیں تو اچانک ضرور تھا،خالدؓ نے اپنے لشکر کو ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ جنگی تربیت میں رکھا ہوا تھا، وہآخر دشمن ملک میں تھے، انہوں نے ایک دو دستے پیچھے رکھے ہوئے تھے۔ جوں ہی حملہ ہوا، خالدؓ نے پیچھے والے دستوں کو آگے بڑھا دیا۔حملہ آوروں میں بستی کے لوگ زیادہ معلوم ہوتے تھے، اور ان میں کچھ تعداد باقاعدہ فوجیوں کی بھی تھی۔یہ دوسری جگہوں مثلاً ارک اور تدمر سے آئے ہوئے فوجی تھے۔یہ سب لوگ تعداد میں تو زیادہ تھے لیکن ان کے لڑنے کا انداز اپنا ہی تھا اور یہ انداز باقاعدہ فوج والا نہیں تھا۔ خالد کی جنگی چالوں کے سامنے تو بڑے تجربہ کار سالار بھی نہیں ٹھہر سکے تھے۔تھوڑے ہی وقت میں مجاہدین نے اس ہجوم کی یہ حالت کردی کہ ان کیلئے بھاگ نکلنا بھی محال ہو گیا۔چونکہ یہ لڑائی تھیاور مسلمانوں پر باقاعدہ حملہ ہوا تھا، اس لیے خالدؓ نے جنگی اصولوں کے تحت احکام دیئے۔مسلمانوں نے بستی پر حملہ کیا اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔قیدی بھی پکڑے اور آگے بڑھے۔ اب خالدؓ پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتے جا تے تھے۔انہیں دشمن قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا جاتا تھا۔اس جھڑپ سے فارغ ہو کر آگے گئے تو آٹھ نو میل آگے بے شمار مویشی چر رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ تمام مویشی اپنے قبضے میں لے لیے جائیں۔یہ حوّاریں کا علاقہ تھا،مجاہدین مویشیوں کو پکڑ رہے تھے تو ہزاروں آدمیوں نے ان پر حملہ کردیا۔یہ سب عیسائی تھے غسانیوں کی خاصی تعداد نہ جانے کہاں سےان کی مدد کو آن پہنچی، یہ ایک شدید حملہ تھا۔حملہ آور قہر اور غضب سے لڑ رہے تھے۔ان کا ایک ہی نعرہ سنائی دے رہاتھا۔’’اُنہیں(مسلمانوں کو)کاٹ دو……انہیںزندہ نہ جانے دو۔‘‘خالدؓ کی حاضر دماغی اور مجاہدین کی ہمت اور ان کے استقلا ل نے انہیں اس میدان میں بھی فتح دی لیکن مجاہدین کے جسموں میں اگر کچھ تازگی رہ گئی تھی تو وہ بھی ختم ہو گئی۔کسی بھی تاریخ میں مجاہدین کی شہادت اور زخمی ہونے کے اعدادوشمار نہیں ملتے،ان پر جو حملے ہوئے تھے ان میں یقیناًکئی مجاہدین شہید ہوئے ہوں گے۔بعض شدید زخمی ہو کر ساری عمر کیلئے معذور بھی ہوئے ہوں گے،شہیدوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے ، یہ کہنا کہ کوئی بھی شہید نہیں ہوا، درست نہیں۔اس طرح مجاہدینکی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اور کمک کی کوئی امید نہیں تھی ۔پھر بھی مجاہدین سیلاب کی مانند بڑھے جا رہے تھے۔ خالدؓ اب زنجیروں والی خود جس پر وہ سرخ عمامہ باندھے رکھتے تھے۔راتکو ہی اتارتے تھے، لشکر کا کہیں قیام ہوتا تھا تو خالدؓ مجاہدین کے درمیان گھومتے پھرتے رہتے، ان کے چہرے پر تازگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی، ان کی مسکراہٹ میں طلسماتی سا تاثر تھا، جو مجاہدین کے حوصلوں اور جذبے کو تروتازہ کر دیتا تھا۔حوّاریں کے لوگوں کو شکست دے کر خالدؓ نے وہاں صرف ایک رات قیام کیا، اور صبح دمشق کی سمت کوچ کر گئے۔شام اور لبنان کے درمیان ایک سلسلہ کوہ ہے، اس کی ایک شاخ شام میں چلی جاتی ہے، دمشق سے تقریباً بیس میل دور دو ہزار فٹ کی بلندی پراک درہ ہے جس کانام ثنیۃ العقاب (درہ عقاب)ہے۔اسے یہ نام خالدؓ نے دیا تھا۔دمشق کی طرف کوچ کے دوران خالدؓکا لشکر تقریباًایک گھنٹے کیلئے رکا تھا اور خالدؓ نے اپنا پرچم عقاب یہاں گاڑا تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کتنی دیر وہاں رکے رہے، ایک جگہ کھڑے دمشق کی طرف دیکھتے رہے۔ان کے سامنے زرخیز، سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ صحراؤں کے یہ مجاہد اتنا سر سبز اور دلنشیںخطہ دیکھ کر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔دمشق سے گیارہ بارہ میل دور مرج راہط نام کا ایک شہر تھا،اس کی تمام تر آبادی غسانیوں کی تھی۔غسانیوں کی بادشاہی میں ہلچل بپا تھی، ان کے پایہ تخت بصرہ میں اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مسلمان بڑی تیزی سے بڑھے چلے آرہے ہیں، اور عیسائی ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جا رہے ہیں۔غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بن الایہم غصے میں رہنے لگا تھا۔فارسیوںکی طرح وہ بھی بار بار کہتا تھا کہ ان ذرا جتنے مسلمانوں کو اس کی بادشاہی میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔ اس نے اپنے جاسوس بھیج کر معلوم کر لیا تھا کہ مسلمان کس طرف سے آرہے ہیں، اور ان کی نفری کتنی ہے، اسے آخری اطلاع یہ ملی کہ خالدؓ بن ولید دمشق سے کچھ دور رہ گیا ہے اور وہ مرج راہط کے راستے دمشق تک پہنچے گا۔’’مرج راہط!‘‘جبلہ غسانی نے کہااور سوچ میں پڑ گیا پھر بھڑک کر بولا۔’’ مرج راہط……کیا ان دنوں وہاں میلہ نہیں لگا کرتا؟‘‘’’میلہ شروع ہے۔‘‘اسے جواب ملا۔جبلہ نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں کچھ احکام دیئے اور کہا کہ ان احکام پر فوراً عمل درآمد شروع ہو جائے ۔یہ ایک جال تھا جو اس نے خالدؓ کے لشکر کیلئے مرج راہط کے میلے میں بچھا دیا تھا۔’’وہ عیسائی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔’’مسلمان اس خوشی کے ساتھ آگے بڑھتے آرہے ہیں کہ ان کے راستے میں جو بھی آئے گا ان کی اطاعت قبول کر لے گا۔رومیوں کو نیچا دکھانے والے غسانی عرب کے بدوؤں کی اطاعت قبول نہیں کریں گے۔ہم مرج راہط میں ہی ان کا خاتمہ کر دیں گے۔‘‘ خالدؓمرج راہط کے قریب پہنچ رہے تھے اور انہیں میلہ نظر آرہا تھا۔بہت بڑا میلہ تھا۔ یہ غسانیوں کا کوئی تہوار تھا۔ہزار ہا لوگ جمع تھے ، کھیل تماشے ہورہے تھے ، گھڑ دو ڑ اور شتر دوڑ بھی ہو رہی تھی،کہیں ناچتھا کہیں گانے تھے، ایک وسیع میدان تھا جس میں آدمی ہی آدمی تھے ۔ان کیتعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔خالدؓکا لشکر جب کچھ اور قریب گیا تو تہوار منانے والا یہ ہجوم دیکھتے ہیدیکھتے فوج کی صورت اختیار کرکے جنگی ترتیب میں آگیا۔گھوڑ سوار باقاعدہ رسالہ بن گئے۔ ہر آدمی تلوار یا برچھی سے مسلح تھا، عورتیں اور بچے بھاگ کر قصبے میں چلے گئے اور ہجوم جو فوج کی صورت اختیار کرگیا تھا ، اس طرح دائیں اور بائیں پھیلنے لگا جیسے مجاہدین کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو۔مجاہدین کو اپنے پیچھے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کا قیامت خیز شور سنائی دیا۔اُدھر دیکھا ، غسانی سواروں کا ایک دستہ تلواریں اور برچھیاں تانے سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح چلا آرہا تھا،یہ تھا وہ جال جو جبلہ بن الایہم نے خالدؓ کیلئے بچھایا تھا۔ممکن نظر نہیں آتا تھاکہ خالدؓ اپنے لشکر کو اس جال سے نکال سکیں گے،مجاہدین کی تعداد نو ہزاربھی نہیں رہ گئی تھی،اور جس دشمن نے انہیں اپنے جال میں لیا تھا اس کی تعداد تین گنا تھی۔مجاہدین تھکے ہوئے بھی تھے۔پانچ روزہ صحرائی سفرکے بعد وہ مسلسل پیش قدمی اور معرکہ آرائی کرتے آرہے تھے۔غسانیوں کے بادشاہ جبلہ نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان کوچ کی ترتیب میں آرہے ہوں گے اور انہیں جنگی ترتیب میں آتے کچھ وقت لگے گااور ان پر حملہ اس طرح ہوگا کہ انہیں سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔اس نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو بھی پیشِ نظر رکھا تھااور یہ کہ مسلمان میلے کو بے ضرر لوگوں کا میلہ ہی سمجھیں گے۔غسانیوں کو معلوم نہیں تھا کہ خالدؓمیلے پر نہیں آئے تھے۔وہ تجربہ کار سالار تھے۔انہیں اچانک حملوں کا تجربہ ہو چکا تھا،انہیں احساس تھا کہ جوں جوں وہ دشمن ملک کے اندر ہی اندر جا رہے ہیں ، حملوں اور چھاپوں کا خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، چنانچہ وہ لشکر کو ایسی ترتیب میں رکھتے تھے کہ اچانک اور غیر متوقع حملے کا فوراًمقابلہ کیا جائے۔ان کے عقب سے غسانیوں کے جو سوار طوفانی موجوں کی طرح آرہے تھے وہی مسلمانوں کو کچلنے کیلئے کافی تھے۔خالدؓ کی توجہ اس رسالے پر تھی اور وہ مطمئن تھے۔مجاہدین ایک مشین کی طرح اس صورتِ حال سے نمٹنے کی ترتیب میں آگئے۔خالدؓ نے خود نعرہ تکبیر بلند کیا جس کا مجاہدین نے رعد کی کڑک کی طرح جواب دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلند آواز سے کچھ احکام دیئے۔’’خدا کی قسم!ہم انہیں سنبھال لیں گے۔‘‘خالدؓ نے بلند آواز سے کہا۔’’اﷲکے نام پر، محمد الرسول اﷲﷺ کے نام پر!‘‘ غسانیوں کا رسالہ بڑی تیزی سے قریب آرہا تھا۔اس کے پیچھے اور کچھ دائیں سے ایک اور رسالہ نکلا، سینکڑوں گھوڑے انتہائی رفتار سے دوڑے آرہے تھے۔ان کا رخ غسانی سواروں کی طرف تھا۔’’پیچھے دیکھو!‘‘کسی غسانی سوار نے چلّا کر کہا۔’’یہ مسلمان سوار معلوم ہوتے ہیں۔‘ پیچھے سے آنے والے سوار مسلمان ہی تھے ۔یہ مجاہدین کے لشکر کا عقبی حصہ (ریئر گارڈ)تھا۔ان سواروں نے غسانی سواروں کو آن لیا، غسانی سوار اس حملے کیلئے تیار نہیں تھے۔ان کا ہلّہ (چارج)بے ترتیب ہوتے ہوتے رک گیا۔ادھر سے خالدؓ نے اپنے سوار دستے کو تیز حملے کا حکم دے دیا۔غسانی سوار گھیرے میں آکر سکڑنے لگے، پھر وہ اتنے سکڑ گئے کہان کے گھوڑوں کو ایک قدم بھی دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نےشتر سوار تیر اندازوں کو میلے والے لشکر پر تیر برسانے کا حکم دے دیا اور دوسرے دستوں کو دشمن کے پہلوؤں پر حملے کیلئے بھیج دیا انہوں نے اپنے دستے کے سامنے سے حملہ کیا۔یہ عقل اور جذبے کی لڑائی تھی۔ غسانی پیادوں کو اپنے گھوڑ سواروں پر بھروسہ تھا جواَب مجاہدین کی تلواروں سے کٹ رہے تھے یا معرکےسے نکل کر بھاگ رہے تھے۔خالدؓکیکوشش یہ تھی کہ دشمن کے لشکر کےعقب میں چلے جائیں تاکہ دشمن شہر میں نہ جا سکے، خالدؓکے حکم سے غسانیوں کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ خیمے میلے کیلئے لگے ہوئے تھے۔شعلوں نے غسانیوں پر خوف طاری کر دیا۔ان کے حوصلےتو یہی دیکھ کر ٹوٹ گئے تھے کہ انہوں نے جو جال بچھایا تھا وہ بری طرحناکام ہوگیا تھا۔غسانیوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ان کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہو رہا تھا کہ خون دیکھ کر وہ گھبراگئے۔آخر وہ بھاگنے لگے۔خالدؓ بار بار اعلان کرا رہے تھے کہ اپنے شہر کو تباہی سے بچانا چاہتے ہو تو باہر رہو۔شام تک خالدؓ اس شہر سے مالِ غنیمت اور بہت سے قیدی اکٹھے کر چکے تھے۔شہر میں ان عورتوں کے بَین سنائی دے رہے تھے جن کے خاوند بھائی باپ اور بیٹے مارے گئے تھے۔خالدؓنے رات کوابو عبیدہؓ کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ خالدؓ کو بصرہ کے قرب و جوار میں ملیں، بصرہ غسانی حکومت کا پایہ تخت تھا۔غسانی اور رومی مل کر بصرہ کے دفاع کا انتظام کر رہے تھے۔ مجاہدین کا بڑا ہی سخت امتحان ابھی باقی تھا۔ وہ جو محمد ﷺکو اﷲکا بھیجا ہوا رسول نہیں مانتے تھے، اور اﷲکو واحدہ لا شریک نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ابھی تک جنگی طاقت کو افراد کی کمی بیشی سے اور ہتھیاروں کی برتری اورکمتری سے ناپ تول رہے تھے۔حیران تو وہ ہوتے تھے کہ مسلمان کس طرح اور کس طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کرتے آرہے ہیں، لیکناپنی فوجوں اور گھوڑوں کی افراط اور اپنے ہتھیاروں کی برتری کا ان کو ایسا گھمنڈتھا کہ وہ سوچتے ہی نہیں تھے کہ انسان میں کوئی اور طاقت بھی ہو سکتی ہے اور یہ طاقت عقیدے اور مذہب کی سچائی ہوتی ہے۔غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بنالایہم بصرہ میں اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ مرج راہط میں اسکا دھوکا کامیاب رہا ہے اور مسلمانوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔اس نے فرض کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دی جا چکی ہے۔اسے آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ مسلمانوں کیلئے میلے کی صورت میں پھندا تیار ہوچکا ہے اور مسلمان تیزی سے اس پھندے میں آرہے ہیں۔جبلہ کے طور اور انداز ہی بدل گئے تھے ۔گذشتہ رات اس نے اپنے ہاں جشن کا سماں بنا دیاتھا۔شراب کے مٹکے خالی ہو گئے تھے۔جبلہ بن الایہم شراب میں تیرتا اور نشے میں اڑتا جوان ہو گیا تھا۔اس نے بڑھاپے کا مذاق اڑایا تھا۔اس نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اس کے حرم کی جوان عورتیں من مانی کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض اس کی قیدوبند سے آزاد ہو کر اپنی پسند کے آدمیوں کے ساتھ محل کے باغیچوں میں غائب ہو گئی ہیں۔خود جبلہ کی بدمستی کا یہ عالم تھا کہ اس جشنِ مے نوشی میں ایک بڑی حسین اور نوجوان لڑکی اس کے سامنے سے گزری تو اس نے لپک کر لڑکی کو پکڑ لیا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ کر بے ہودہحرکتیں کرنے لگا۔لڑکی اس کے بازوؤں سے آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔’’تیری یہ جرات؟‘‘اس نے لڑکی کو الگ کرکے ایک جھٹکے سے اپنے سامنے کھڑا کیا اور بڑےسخت غصے میں بولا۔’’کون ہے تو جو میرے جسم کو ناپسند کر رہی ہے؟‘‘’’تیری بھانجی!‘‘لڑکی نے روتے ہوئے چلّا کر کہا۔’’تیرے باپ کی بیٹی کی بیٹی!‘‘جبلہ بن الایہم نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا۔’’فتح کی خوشی کا نشہ شراب کے نشے سےتیز ہوتاہے۔‘‘جبلہ نے کہا۔اس کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔’’کل جب مجھے خبر ملے گی کہ مسلمانوں کو کچل دیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی بھاگ نہیں سکا تو میری حالت اور زیادہ بری ہو جائے گی۔‘‘اس کی بھانجی روتی ہوئی جشن سے نکل گئی۔پھر وہ وقت آگیا جب وہ مسلمانوں پر اپنی فتح کی خبر کا منتظر تھا۔اب تک خبر آجانی چاہیے تھی۔ وہ باغ میں جا بیٹھا تھا۔ایک جواں سال خادمہ طشتری میں شراب کی صراحی اور پیالہ رکھے اس کی طرف جا رہی تھی۔اُدھر سے دربان بڑا تیز چلتا اس تک پہنچا۔’’آیا ہے کوئی؟‘‘جبلہ نے بیتاب ہو کر دربان سے پوچھا۔’’کوئی مرج الراہط سے آیا ہے؟‘‘ ’’قاصد آیا ہے۔‘‘دربان سے دبے دبے سے لہجے میں کہا۔’’زخمی ہے۔‘‘’’بھیجو اسے!‘‘جبلہ نے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’وہفتح کی خبر لایا ہے۔اسے جلدی میرے پاس بھیجو۔‘‘خادمہ طشتری اٹھائے اس کے قریب کھڑی تھی۔ادھر سے ایک زخمی چلا آرہا تھا۔’’وہیں سے کہو کہ تم فتح کی خبر لائے ہو۔‘‘جبلہ بن الایہم نے کہا۔زخمی قاصد نے کچھ نہ کہا۔وہ چلتا آیا۔اس کے کپڑے اپنے زخموں کے خون سے لال تھے۔اس کا سر کپڑے میں لپٹا ہو اتھا۔’’کیا تم اتنے زخمی ہو کہ بول نہیں سکتے؟‘‘جبلہ نے بلند آواز سے پوچھا۔’’بول سکتا ہوں۔‘‘قاصد نے کہا۔’’لیکن جو خبر لایا ہوں وہ اپنی زبان سے سنانے کی جرات نہیں۔‘‘’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘جبلہ کی آواز دب سی گئی۔’’کیا مسلمان پھندے میں نہیں آئے؟……آکر نکل گئے ہیں؟‘‘’’ہاں!‘‘قاصد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’وہ نکل گئے……انہوں نے ایسی چال چلی کہ ہم ان کے پھندے میں آگئے۔اپنی فوج کٹ گئی ہے۔مرج راہط کو انہوں نے لوٹ لیا ہے۔‘‘جبلہ بن الایہم نے طشتری سے شراب کی صراحی اٹھائی ۔خادمہ نے پیالہ اٹھا کر اس کے آگے کیا۔جبلہ نے صراحی بڑی زور سے قاصد پر پھینکی۔ قاصد بہت قریب کھڑا تھا۔صراحی ا س کے ماتھے پر لگی۔وہ تیورا کر گرا۔جبلہ نے خادمہ کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر اس کے منہ پر مارا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلاگیا۔غسانیوں کے بادشاہ کامحل ماتمی فضاء میں ڈوب گیا، مرج راہط کے بھگوڑے غسانی بصرہ میں آگئے اور بصرہ ماتمی شہر بن گیا۔اصل ماتم تو ان کے یہاں تھا جن کے بیٹے بھائی خاوند اور باپ اس پھندے میں آکر مارے گئے تھے جو انہوں نے خالدؓ کے مجاہدین کیلئے تیار کیا تھا۔اس ماتم کے ساتھ ایک دہشت بھی آئی تھی اور یہ دہشت ہر گھر میں پہنچ گئی تھی۔’’ان کے تیر زہر میں بجھے ہوئے ہوتے ہیں۔کسی کو اس تیر سے خراش بھی آجائے تو وہ مر جاتا ہے۔‘‘’’ان کے گھوڑے پروں والے ہیں، کہتے ہیں ہوا سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘’’ان مسلمانوں کا رسول (ﷺ)جادوگر تھا۔اس کا جادو چل رہا ہے۔‘‘’’ان کے سامنے لاکھوں کی فوج بھی نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘’’سنا ہے دل کے بڑے نرم ہیں، جو ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں انہیں وہ گلے لگا لیتے ہیں۔‘‘’’جس شہر میں ان کا مقابلہ ہوتاہے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔‘‘’’کسی کو زندہ نہیں چھوڑتے، لڑنے والوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔‘‘دبی دبی ایسی آواز بھی سنائی دیتی تھی ۔’’مذہبان کا سچا معلوم ہوتا ہے۔وہ اﷲاور اس کے رسولﷺکومانتے ہیں، یہی ان کی طاقت ہے ،جنون سے لڑتے ہیں۔‘‘ان لوگوں پر جو حیرتاور دہشت طاری ہو گئی تھی اس میں وہ حق بجانب تھے۔ ’’تم لوگ بصرہ کو بھی نہیں بچا سکو گے۔‘‘جبلہ بن الایہمقہر بھرے لہجے میں اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔’’تمہاری بزدلی کو دیکھ کر میں نے رومیوں کو مدد کیلئے پکارا ہے،اگر تم مسلمانوں کو شکست دے دیتے تو میں رومیوں کے سینے پر کودتا۔ان پر میری دھاک بیٹھ جاتی۔مگر تم نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔رومی ہمارے پایہ تخت کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔‘‘وہ اپنے سالاروں کوکوس ہی رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ مسلمانوں کی ایک فوج بصرہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔’’اتنی جلدی؟‘‘اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔’’مرج راہط سے وہ اتنی جلدی بصرہ تک کس طرح آگئے ہیں؟رومی سالار کو اطلاع دو۔‘‘رومی فوج جو خالدؓ کی کامیابیوں کی خبریں سن کر جبلہ بن الایہم کی مددکو آئی تھی وہ بصرہ کے باہر خیمہ زن تھی، اس کے سالار کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کیفوج آرہی ہے توسالار نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا،اس فوج میں عرب عیسائی بھی تھے۔فوج جو بصرہ کی طرف بڑھرہی تھی وہ خالدؓ کی نہیں تھی۔یہ ایکمسلمان سالار شرجیلؓ بن حسنہ کا لشکر تھا، جس کی نفری چار ہزار تھی۔مسلمان لشکر جو شام کی فتح کیلئے بھیجا گیاتھایہ اس کا حصہ تھا۔خلیفۃ المسلمینؓ کے احکام کے مطابق سالار ابو عبیدہؓ نے لشکر کے دوسرے حصوں کو بھی یکجا کرکے اپنی کمان میں لے لیا تھا۔بصرہ پر شرجیلؓ بن حسنہ کے حملے کا پس منظر یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو ایک خط لکھا تھا:’’میں نے خالد بن ولید کو یہ کام سونپاہے کہ رومیوںپر چڑھائی کرے۔تم پر اس کی اطاعت فرض ہے۔کوئی کام اس کے حکم کے خلاف نہ کرنا۔ میں نے اسے تمہارا امیر مقررکیا ہے۔مجھے احساس ہے کہ دین کے باقی معاملات میں تم خالد سے برترہو اور تمہارا رتبہ اونچا ہے لیکن جنگ کی جو مہارت خالد کو ہے وہ تمہیں نہیں۔اﷲہم سب کو صراط المستقیم پر چلنے کی توفیقدے۔‘‘خالدؓ کو اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔جس وقت خالدؓ اپنے رستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو کچلتے جا رہے تھے، اس وقت ابو عبیدہؓ فارغ بیٹھے تھے۔خالدؓنے جب مرج راہط کے مقام پر بھی دشمن کو شکست دے دی تو ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا، اس وقت ابو عبیدہؓ کے دستے دریائے یرموک کے شمال مشرق میں ایک مقام حوران میں تھے۔ان کے ماتحت دو سالار تھے ایک شرجیلؓ بن حسنہ اور دوسرے یزیدؓ بن ابی سفیان۔’’رفیقو!‘‘ابو عبیدہؓ نے دونوں سالاروں سے کہا۔’’ہم کس طرح شکر ادا کریں اﷲتبارک وتعالیٰ کا جو ابنِ ولید کو راستے میں آنے والے ہر دشمن پر حاوی کرتا آ رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment

The day of the most tough error For the Deniers

For the deniers  . The day of the most Tough error.  For the day of class The day of judgment And I didn't realize the day o...